علما کا رول اسلام میں
راقم الحروف کے نزدیک، علما کے رول کے سلسلہ میں قرآن کی رہنما آیت یہ ہے:
وَما كانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (9:122)۔ یعنی، اور یہ ممکن نہ تھا کہ اہل ایمان سب نکل کھڑے ہوں، تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک حصہ نکل کر آتا تاکہ وہ دین میں سمجھ پیدا کرتا اور واپس جا کر اپنی قوم کے لوگوں کو ڈراتا تاکہ وہ بھی پرہیز کرنے والے بنتے۔
اس آیت میں تفقہ کا لفظ وضاحت طلب ہے۔ پہلے ہم فقہ یا تفقہ کی لغوی تحقیق کریں گے۔ اس کے بعد یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں گے کہ اس آیت کے مطابق علماء کا کردار کیا ہے یا کیاہونا چاہیے۔
فقہ کا لفظ بعد کے زمانہ میں علم الفروع کے لیے بولا جانے لگا ہے۔ یعنی شریعت کے جزئی مسائل کو جاننا۔ مگر یہ اس لفظ کا ایک استعمال مفہوم ہے جو نزول قرآن کے بہت بعد رائج ہوا۔ قرآن میں فقہ موجودہ معروف معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ اس کے اصل لغوی معنی میں ہے۔
راغب الاصفہانی(م502ھ) نے لکھا ہے کہ فقہ یہ ہے کہ موجود علم کے ذریعہ غائب علم تک پہنچا جائے۔ پس فقہ کا لفظ علم کے لفظ سے زیادہ خاص ہے (الفِقْهُ:هُوَ التَّوَصُّلُ إِلَى عِلْمٍ غَائِبٍ بِعِلْمٍ شَاهِدٍ فَهُوَ أَخَصُّ مِنَ الْعِلْمِ) المفردات فی غريب القرآن،384۔
لسان العرب(ابن منظور) میں اس کی مفصل تشریح ہے۔ اس میں بتایا ہے کہ فقہ اصلاً فہم کے معنی میں ہے( الْفِقْهُ فِي الْأَصْلِ الْفَهْمُ )۔ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ کی تشریح اس نے أَيْ لِيَكُونُوا عُلَمَاءَ بِه کے لفظ سے کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن عباس کی بابت دعائیہ طور پر فرمایا تھا: اللهُمَّ عَلمْهُ الدّينَ وَفقهْهُ فِي التَّأْوِيل ۔ اس کی تشریح ان الفاظ میں کی ہے:أَي فَهِّمْه تأْويلَه وَمَعْنَاهُ ۔ لسان العرب میں الازہری کا یہ قول نقل کیا گیا ہے:
قَالَ لِي رَجُلٌ مِنْ كِلَابٍ وَهُوَ يَصِف لِي شَيْئًا فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ كَلَامِهِ قَالَ أَفَقِهْتَ؟ يُرِيدُ أَفَهِمْتَ۔ قبیلہ کلاب کا ایک شخص مجھ کو ایک بات بتا رہا تھا۔ جب وہ اپنی بات کہہ کر فارغ ہوا تو اس نے کہا: أَفَقِهْتَ ۔ اس سے اس کی مراد یہ تھی کہ کیا تم نے سمجھ لیا۔
اسی طرح لسان العرب میں اس سلسلے کا ایک واقعہ ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے:
وَفِي حَدِيثِ سَلْمان: أَنه نَزَلَ عَلَى نَبَطِيَّةٍ بِالْعِرَاقِ فَقَالَ لَهَا هَلْ هُنَا مكانٌ نَظيف أُصَلي فِيهِ؟ فَقَالَتْ:طَهِّرْ قَلْبَك وصَلِّ حَيْثُ شِئْتَ، فَقَالَ سَلْمَانُ: فَقِهَتْ أَي فَهِمَتْ وفَطِنَتْ للحقِّ (لسان العرب، جلد 13، صفحہ 522)۔
حدیث سلمان میں ہے۔ وہ عراق میں ایک نبطی عورت کے یہاں ٹھہرے۔ انھوں نے عورت سے کہا۔ کیا یہاں کوئی صاف جگہ ہے جہاں میں نماز پڑھوں۔ عورت نے کہا کہ اپنے دل کو پاک رکھو اور پھر جہاں چاہے نماز پڑھو۔ یہ واقعہ بتا کر سلمان نے کہا کہ :فَقِهَتْ ۔ یعنی، وہ عورت سمجھ گئی، اس نے حق کا ادراک کر لیا۔
اہل لغت کی اس تشریح سے معلوم ہوتا ہے کہ فقہ کا مطلب فہم اور بصیرت اور ادراک ہے۔ اس سے مراد وہ جاننا ہے جو معرفت کے درجہ تک پہنچ جائے۔ جو آدمی کو شناسائے حقیقت بنا دے۔ صرف عالم ہونا فقیہ ہونا نہیں ہے۔ فقیہ وہ ہے جو عالم ہونے کے ساتھ عارف بھی ہو۔
