چند مثالیں
سید ابو الاعلیٰ مودودی کے نزدیک اسلام ایک مکمل سیاسی انقلاب کی تحریک ہے۔ اس سلسلہ میں اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے وہ پرجوش طور پر لکھتے ہیں:
’’آج دنیا آپ کے موذن کو اشہد ان لاالٰہ الااللہ کی صدا بلند کرتے ہوئے اس لیے ٹھنڈے پیٹوں سن لیتی ہے کہ نہ پکارنے والا جانتا ہے کہ کیا پکار رہا ہوں، نہ سننے والوں کو اس میں کوئی معنی اور مقصد نظر آتا ہے۔ لیکن اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اس اعلان کا مقصد یہ ہے اور اعلان کرنے والا جان بوجھ کر اس بات کا اعلان کر رہا ہے کہ میرا کوئی بادشاہ یا فرماں روا نہیں ہے۔ کوئی حکومت میں تسلیم نہیں کرتا۔ کسی قانون کو میں نہیں مانتا۔ کسی عدالت کے حدود اختیارات مجھ تک نہیں پہنچتے۔ کسی کا حکم میرے لیے حکم نہیں ہے۔ کوئی رواج اور کوئی رسم مجھے تسلیم نہیں۔ کسی کے امتیازی حقوق، کسی کی ریاست، کسی کا تقدس، کسی کے اختیارات میں نہیں مانتا۔ ایک اللہ کے سوا میں سب سے منحرف ہوں۔ تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس صدا کو کہیں بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ آپ خود کسی سے لڑنے جائیں یا نہ جائیں دنیا خود آپ سے لڑنے آ جائے گی۔ یہ آواز بلند کرتے ہی آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ یکا یک زمین و آسمان آپ کے دشمن ہوگئے ہیں اور ہر طرف آپ کے لیے سانپ، بچھو اور درندے ہی درندے ہیں۔‘‘ اسلامی سیاست، دہلی1986، صفحہ76-175
سید ابو الاعلی مودودی نے یہ پرجوش الفاظ اس لیے لکھے کہ انہوں نے دیکھا کہ آج ہماری مسجدوں سے اذان کی آواز بلند ہو رہی ہے تو کوئی اس کی وجہ سے ہم سے لڑنے نہیں آتا۔ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں توحید کی آواز بلند کی تو ہر طرف سے متشددانہ مخالفت شروع ہوگئی۔’’ کسی کو گھر والوں نے نکال دیا۔ کسی پر مار پڑی۔ کسی کو قید میں ڈالا گیا۔ کس کو تپتی ہوئی ریت پرگھسیٹا گیا۔ کسی کی سربازار پتھروں اور گالیوں سے تواضع کی گئی۔ کسی کی آنکھ پھوڑ ی گئی۔ کسی کا سر پھاڑ دیا گیا۔‘‘(صفحہ177)
یہ الفاظ دور جدید سے بے خبری کا ثبوت ہیں۔ مصنف اگر زمانہ حاضر سے گہری واقفیت رکھتے تو وہ جانتے کہ اس فرق کا سبب زمانی عامل(age factor) ہے۔ قدیم زمانہ مذہبی تعذیب (religious persecution) کا زمانہ تھا، موجودہ زمانہ مذہبی آزادی کا زمانہ ہے۔ مذکورہ فرق لاالہ الااللہ کے سیاسی مفہوم کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ زمانی فرق کا معاملہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود سید ابوالاعلیٰ مودودی جو یقینی طور پر اس ’’انقلابی مفہوم‘‘ کے حامل تھے، انھوں نے اور ان کی جماعت نے غیر منقسم ہندستان میں دس سال تک اپنے انقلابی مفہوم کے مطاق’’اذان‘‘ دی۔ مگر یہاں کی حکومت نے کبھی اس بنا پر ان کی پکڑ دھکڑ نہ کی۔ اور نہ ان کے سروں پر اس وجہ سے آرے چلائے گئے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اگر اس زمانی فرق کو جانتے تو اس کو وہ اسلامی دعوت کے حق میں ایک عظیم امکان سمجھتے۔ مگر اس فرق کو حقیقت نہ جاننے کی وجہ سے وہ اس کو استعمال نہ کر سکے۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی ایک کتاب’’تنقیحات‘‘ ہے۔ اس میں مصنف کے وہ مضامین جمع کیے گئے ہیں جو انھوں نے اسلام اور مغربی تہذیب کے تصادم پر لکھے تھے۔ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ مغربی تہذیب سراسر باطل تہذیب ہے۔ دہریت، الحاد، لامذہبیت اور مادہ پرستی نے اس کو پیدا کیا ہے۔ مذہب کے خلاف عقل و حکمت کی لڑائی نے اس تہذیب کو جنم دیا ہے(صفحہ9)۔ اسلام کے اصول تمدن و تہذیب مغربی تہذیب و تمدن کے اصول سے یکسر مختلف ہیں(صفحہ25)۔ وہ تخم خبیث جو مغرب کی نشأۃ ثانیہ کے زمانہ میں بویا گیا تھا، چند صدیوں کے اندر تمدن و تہذیب کا ایک عظیم الشان شجر خبیث بن کر اٹھا ہے جس کے پھل میٹھے مگر زہر آلود ہیں۔ جس کے پھول خوش نما مگر خاردار ہیں۔ جس کی شاخیں بہار کا منظر پیش کرتی ہیں مگر وہ ایسی زہریلی ہوا اگل رہی جو نظر نہیں آتی اور اندر ہی اندر نوع بشری کے خون کو مسموم کیے جا رہے ہیں(صفحہ28-29)۔
اس قسم کے مضامین صرف جدید تہذیب سے بے خبری کا نتیجہ ہیں۔ اس بے خبری کا نتیجہ یہ ہوا کہ موجودہ زمانہ کے علما کے لیے یہ تہذیب صرف نفرت وحقارت کاموضوع بن گئی۔ وہ اس کے اندر چھپے ہوئے مثبت امکانات کو دریافت ہونے سے قاصر رہے۔ اور اسی لیے وہ اس کو اپنے حق میں استعمال بھی نہ کر سکے۔
