معیارِ قوت میں تبدیلی

اوپر جوبات کہی گئی وہ قوانین فطرت کی دریافت کے فلسفیانہ پہلو سے تعلق رکھتی تھی۔ عملی اعتبار سے اس دریافت نے مغرب کو مزید ایک بہت بڑا فائدہ پہنچایا۔ اس کے ذریعہ اہل مغرب کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ تاریخ میں پہلی بار طاقت کے معیار کو بدل دیں۔ وہ طاقت وقوت کو ایک نیا مفہوم دے دیں جس سے پچھلی قومیں آشنا نہیں ہو سکی تھیں۔

اس کے ذریعہ اہل مغرب نے قدیم روایتی دور کو نئے سائنسی دور میں داخل کر دیا۔ انھوں نے دستکاری کی صنعت کو مشینی صنعت میں تبدیل کر دیا۔ انہوں نے  جہاز رانی کو بادبانی کشتی کے دور سے نکال کر دخانی کشتی کے دور میں پہنچا دیا۔ انھوں نے دستی ہتھیاروں سے آگے بڑھ کر دور مار ہتھیار تیار کر لیے۔ انھوں نے برّی اور بحری سفر پر ہوائی سفر کا اضافہ کیا۔ انھوں نے حیوانی قوت سے چلنے والی سواری کو انجن کی قوت سے چلنے والی سواری میں تبدیل کر لیا۔ انھوں نے انسانی تاریخ کو محنت کے عمل کے دور سے نکال کر منصوبہ بند عمل کے دور میں پہنچا دیا۔

تاریخ کے پچھلے ادوار میں ایک فریق اور دوسرے فریق کے درمیان زیادہ تر کمیاتی فرق (quantitative difference) ہوا کرتا تھا۔ اب اہل مغرب نے ایسا دور تخلیق کیا جب کہ ان کے اور دوسروں کے درمیان کیفیاتی فرق (qualitative difference) پیدا ہوگیا۔ اس تبدیلی نے اہلِ مغرب کو دوسری قوموں کے اوپر واضح اور فیصلہ کن فوقیت دے دی۔

ان فروق نے جس طرح حالات کو بدلا، اسی طرح خود انسانوں میں زبردست تبدیلیاں پیدا کیں۔ اب اہلِ مغرب نئی دریافت کی نفسیات میں جی رہے تھے اور اہلِ مشرق وراثتی عقیدہ کی نفسیات میں۔ اہلِ مغرب اجتہادی اوصاف کے مالک تھے اور اہلِ مشرق تقلیدی اوصاف کے مالک۔ اہلِ مغرب کے درمیان آزادی تنقید کا ماحول تھا اور اہلِ مشرق کے یہاں ذہنی جمود کا ماحول۔

اہلِ مغرب کا قافلہ رواں دریا کی مانند تھا اور اہلِ مشرق کی جماعت ٹھہرے ہوئے پانی کی مانند۔ اہلِ مغرب ایک مقصد کے تحت متحرک ہوئے تھے اور اہلِ مشرق کے یہاں مقصد کا تصور فنا ہو چکا تھا۔ اہلِ مغرب کے زندہ اوصاف نے ان کو باہم متحد کر رکھا تھا اور اہلِ مشرق اپنے زوال یافتہ اوصاف کے نتیجہ میں ان خصوصیات سے محروم ہو چکے تھے جو افراد کو ایک دوسرے سے متحد کرتے ہیں۔ اہلِ مغرب اس احساس پر ابھرے تھے کہ انھوں نے ایک نئی تہذیب پیدا کی ہے جس کو انھیں سارے عالم تک پہنچانا ہے اور اہل ِمشرق صرف اس احساس پر زندہ تھے کہ وہ ماضی کے قدیم اثاثہ کے وارث ہیں۔ اہلِ مغرب اقدام کے جذبات سے بھرپور تھے جب کہ اہلِ مشرق کی دوڑ کی آخری حد تحفظ پر جا کر ختم ہو جاتی تھی۔

اس فرق نے دونوں جماعتوں کے افراد کے درمیان زیادہ بڑے پیمانہ پر وہی فرق پیدا کر دیا تھا جو ایک تھکی ہوئی فوج اور ایک تازہ دم فوج کے درمیان ہوا کرتا ہے۔ ایسی حالت میں اصل مسئلہ یہ تھا کہ اپنے گروہ کے افراد کو ازسر ِنو تیار کیا جائے ،نہ یہ کہ ان غیر تیار شدہ افراد کو جوش دلا کر انھیں فریق ثانی کے خلاف صف آرا کر دیا جائے، جیسا کہ موجودہ دور کے علما نے کیا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom