شاہ ولی اللہ دہلوی
علما کے کردار کا دوسرا دور وہ ہے جس کی علامت شاہ ولی اللہ دہلوی(1703-1762) کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ شاہ ولی اللہ نے بلاشبہ کچھ مفید کام کیے۔ مثلاً قرآن کا فارسی زبان میں ترجمہ، مدرسہ رحیمیہ قائم کرنا، حدیث کے علم کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا، حجۃ اللہ البالغہ اور اس قسم کی دوسری قیمتی کتابوں کی تصنیف وغیرہ۔
مگرا س قسم کے مختلف کام جو شاہ ولی اللہ نے انجام دیے، وہ سب اپنی نوعیت کے اعتبار سے تحفظاتی کام ہیں، نہ کہ قائدانہ کام۔ تحفظاتی خدمت بھی بلاشبہ ایک قابل قدر خدمت ہے۔ مگر تحفظاتی کردار اورقائدانہ کردار میں ایک بنیادی فرق ہے۔ تحفظ کا تعلق ماضی کی حفاظت سے ہے اور قیادت کا تعلق مستقبل کی تعمیر سے۔ ان کی تصنیف حجۃ البالغہ قائدانہ نوعیت کی ایک خدمت قرار دی جا سکتی تھی، بشرطیکہ وہ اسم بامسمّٰی ہوتی۔ مگر جیسا کہ آئندہ وضاحت کی جائے گی، شاہ صاحب کی یہ کتاب اپنے اسلوب کے اعتبار سے دین الٰہی کی صرف تقلیدی تبئین ہے، وہ دین الٰہی کی عقلی تبئین نہیں۔
تحفظاتی کردار ادا کرنے کے لیے یہ کافی ہے کہ آدمی کو ماضی کے اثاثہ سے واقفیت ہو۔ مگر جس چیز کو قائدانہ کردار کہا جاتا ہے اس کی ادائیگی کے لیے مستقبل کو دیکھنے والی نگاہ درکار ہے۔ کیوں کہ قائدانہ کردار ایک شخص حال میں ادا کرتا ہے اور اس کا نتیجہ ہمیشہ مستقبل میں برآمد ہوتاہے۔ اسی لیے تحفظاتی کردار ادا کرنے کے لیے مقلدانہ فکر کافی ہو جاتا ہے۔ مگر قائدانہ کردار ادا کرنااس کے بغیر ممکن نہیں کہ آدمی زمانہ شناسی کے ساتھ اعلیٰ مجتہدانہ صلاحیت کا مالک ہو۔
شاہ ولی اللہ نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ میں نے خواب میں اپنے آپ کو دیکھا کہ میں قائم الزمان ہوں۔ یعنی یہ کہ اللہ جب نظام خیر میں سے کسی چیز کو چاہتا ہے تو وہ مجھ کو اپنی منشا کو پوراکرنے کے لیے آلہ کے طور پر استعمال کرتا ہے (رَأَيْتُنِي فِي المَنَامِ قَائِمَ الزَّمَانِ۔ أَعْنِي بِذَلِكَ أَنَّ اللهَ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا مِن نِظَامِ الخَيْرِ جَعَلَنِي كَالجَارِحَةِ لِإِتْمَامِ مُرَادِهِ) فیوض الحرمین،صفحہ 111 ۔
میں سمجھتا ہوں کہ شاہ ولی اللہ کا یہ خواب صحیح تھا۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ بالفعل قائم الزمان ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ انہیں قائم الزمان بننا چاہیے۔
شاہ ولی اللہ کی اہمیت یہ ہے کہ وہ دور جدید کے سرے پر پیدا ہوئے۔ وہ اس تاریخی مقام پر تھے جہاں ان کے لیے مقدر تھا کہ وہ وقت کے دھارے کو سمجھیں اورعملِ اسلامی کی ایسی روایت قائم کریں جو ان کے بعد صدیوں تک جاری رہ کر دورِ جدید کو ازسر نو اسلام کا دور بنا سکے۔ مگر وہ اپنا یہ تاریخی کردار ادا کرنے میں ناکام رہے۔ وہ قائم الزمان بننے کے مقام پر تھے مگر وہ عملاً قائم الزمان نہ بن سکے۔
شاہ ولی اللہ کا زمانہ اٹھارویں صدی کا زمانہ ہے۔ اس سے پہلے سترھویں صدی میں یورپ میں اس نئے دور کا بیج پڑ چکا تھا جو بالآخر پوری نوع انسانی کو اپنی لپیٹ میں لے لینے والا تھا۔ وہ دورِ تقلید کو دورِ سائنس میں تبدیل کر دینے والا تھا۔ پچھلے زمانہ میں(بشمول دورِ شرک) کائناتی واقعات کی تشریح اعتقادی اصطلاح میں کی جاتی تھی۔ اب تاریخِ بشری میں پہلی بار ایک ایسا دور آ ر ہا تھا جب کہ کائناتی واقعات کی تشریح خالص اسباب مادی کی اصطلاحوں میں کی جائے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ شاکلۂ انسانی تبدیل ہو جائے۔ مگر شاہ ولی اللہ اپنے قریبی واقعات میں الجھ کر رہ گئے۔ وہ دور رس بنیاد پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی نہ کر سکے، جو کہ دراصل قائم الزمان ہونے کا تقاضا تھا۔
قدیم زمانہ میں واقعات عالم کی تشریح اعتقادی اصطلاحوں میں کی جاتی تھی۔ یعنی جو کچھ ہو رہاہے اس کا کرنے والا خدا ہے۔ اسلام سے پہلے غلبۂ شرک کے زمانہ میں اس اعتقادی تشریح کے لیے کئی خداؤں کے حوالے دیے جاتے تھے۔ اسلام کے بعد غلبہ توحید کا زمانہ آیا تو صرف ایک خدا کی بنیاد پر تمام واقعات عالم کی تشریح کی جانے لگی۔ موجودہ دور پوری معلوم تاریخ میں پہلا دورہے جب کہ واقعات عالم کو اسباب مادی کی اصطلاحوں میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی۔
سولہویں صدی عیسوی میں مظاہر فطرت کی باقاعدہ علمی تحقیق کی جانے لگی۔ گلیلیوگلیلی (1564-1642) نے چاند اور سیاروں اور دوسرے مظاہر فطرت کا مطالعہ کیا۔ اس نے محسوس کیا کہ فطرت ایسے محکم قوانین کے تحت عمل کرتی ہے جن کو ریاضیاتی صحت کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے۔ اس نے کہا کہ فطرت کی کتاب سب کی سب ریاضی کی صورت میں لکھی گئی ہے
The book of nature is written in mathematical form.
(Encyclopedia Britannica, Vol. 15, p. 530)
چرچ کی مخالفت کے باوجود یہ طرز فکر بڑھتا رہا۔ سترھویں صدی میں کثیر تعداد میں یورپ میں ایسے اہل علم پیدا ہوئے جو کائناتی واقعات کی مشینی تشریح کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ مثلاً پوپ، ٹائیکو براہی، کپلر، وغیرہ۔ یہ پروگرام جس کو عام طور پر مشینی فلسفہ کہا جاتا ہے، وہ سترھویں صدی کا غالب موضوع فکر تھا:
This program, known as the mechanical philosophy, came to be the dominant theme of 17th-century science.
(Encyclopedia Britannica, Vol. 14, p. 387)
اٹھارویں صدی میں سرآئزک نیوٹن نے اس فکری عمل کو تکمیل تک پہنچا دیا۔ نیوٹن کی کتاب، جس کا مختصر نام پرنسپیا (Principia)ہے، شاہ ولی اللہ کی وفات سے 75 سال پہلے 1687ء میں لاطینی زبان میں چھپی۔ اور1729ء میں انگریزی میں شائع ہوئی۔ اسپیس، ٹائم، گریویٹی اور فورس کے موضوعات پر مختلف سائنسی ذہن پہلے سے کام کر رہے تھے۔ مگر اس معاملہ میں کامیابی کا سہرا نیوٹن کے حصہ میں آیا۔ نیوٹن نے اپنی کتاب(پرنسپیا) میں یونیورسل گریویٹیشن کے قانون کو ریاضیاتی معقولیت (mathematical reasoning) کے ذریعہ آخری طور پر ثابت کر دیا (انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا، جلد 6، صفحہ888)۔
شاہ ولی اللہ کے زمانہ میں ایک نئے انقلاب کے تمام آثار ظاہر ہو چکے تھے۔ اس انقلاب کا فکری پہلو اسلام کے لیے بے حد اہمیت رکھتا تھا۔ وہ حقائق کی تقلیدی تشریح کو رد کر رہا تھا۔ اس کے نزدیک صرف وہ تشریح معقول اور مسلم حیثیت رکھتی تھی جو جدید سائنٹفک معیاروں پر کی گئی ہو۔ مگر شاہ ولی اللہ ان عالمی تبدیلیوں سے یکسر بے خبر رہے۔
شاہ ولی اللہ واقعات کو دہلی کے محدود دائرہ میں دیکھ رہے تھے اور ان کی اصلاح کی سطحی تدبیریں کر رہے تھے۔ اگر وہ سفر کرتے اور واقعات کا مطالعہ عالمی حالات کے پس منظر میں کرتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ اصل مسئلہ ایک عالمی طوفان کا ہے، نہ کہ اس نام نہاد سلطنت کو بچانے کی لاحاصل کوشش کرنے کا جو اپنی عمر طبعی کو پہنچ کر"حکومت شاہ عالم از دہلی تاپالم‘‘ کا مصداق بن چکی ہے۔
شاہ ولی اللہ جس مغل سلطنت کو زندہ کرنا چاہتے تھے وہ اتنی دیمک زدہ ہو چکی تھی کہ اس نے زندگی کی طاقت کھو دی تھی۔ اس کے باوجود وہ اس سے بڑی بڑی امیدیں قائم کیے ہوئے تھے۔ التفھیمات الالہیۃ میں وہ شاہان وقت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں بادشاہوں سے کہتا ہوں کہ اے بادشاہو، اس زمانہ میں ملأ اعلیٰ کی مرضی یہ ہے کہ تم لوگ تلواروں کو کھینچ لو، پھر ان کو نیام میں داخل نہ کرو جب تک اللہ مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان فرق نہ پیدا کر دے اور کافروں اور فاسقوں کے سرکش افراد اپنے کمزوروں سے نہ مل جائیں۔ وہ اپنے لیے کچھ کرنے کے قابل نہ رہیں۔ اور یہی اللہ کا حکم ہے کہ تم ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب کا سب اللہ کے لیے ہو جائے:
’’وَأَقُولُ لِلْمُلُوکِ أَیُّهَا الْمُلُوکُ ،الْمَرْضِیُّ عِنْدَالْمَلَأِ إلْاَعْلٰی فِیْ ھذَا الزَّمَانِ أَنْ تَسُلُّوا أَلْسُّیُوَفَ ثُمَّ لَاتَغْمِدُوهَا حَتَّی یَجْعَلَ اللہَ فُرْقَانًا بَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُشْرِکِیْنَ۔ وَحَتّی یَلْحَقَ مَرَدَةَ الْکُفَّارِ وَالْفُسَّاقِ بِضُعَفَائِھِمْ لَایَسْتَطِیْعُوْنَ لِأَنْفُسِھِمْ شَیْئاً۔ وھوَقَوْلہ تَعَالیٰ وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلّٰهِ ‘‘ (التفہیمات الالٰہیہ،1936، جلد1، صفحہ16-215)
یہ نام نہاد ملوک اتنے کمزور ہو چکے تھے کہ وہ صرف پالکی میں بیٹھ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتے تھے۔ دہلی کے وزیر امداد الملک غازی الدین نے 1754ء میں شاہ ولی اللہ کے ہم عصر جہاں دار شاہ کے لڑکے کو تخت پر بٹھایا اور اس کا لقب عالمگیر ثانی رکھا۔ 1757ء میں افغان سردار احمد شاہ ابدالی دہلی آیا اور اس کو شہنشاہ ہند کا خطاب عطا کیا۔ مگر جلد ہی بعد1759 میں اسی وزیر نے عالم گیرثانی کو قتل کر دیا جس نے چند سال پہلے اس کو تخت پر بٹھایا تھا۔ ایسی سلطنت کے سامنے جہاد بالسیف کی تقریر کرنا ایسا ہی ہے جیسے مردہ لاشوں کے سامنے رجز پڑھنا۔
شاہ ولی اللہ کا یہ کارنامہ بتایا جاتاہے کہ انھوں نے گرتی ہوئی مغل سلطنت کوسنبھالنے کی کوشش کی۔ انھوں نے نواب نجیب الدولہ کے ذریعہ کابل کے احمد شاہ ابدالی کو ہندستان بلوایا۔ اس نے1761ء میں پانی پت کے مقام پر مرہٹوں کو شکست دے کر مغل سلطنت کے دشمن کو کچل دیا۔ مگر آخری نتیجہ کے اعتبار سے دیکھئے تو یہ واقعہ شاہ ولی اللہ کے کارنامہ کے خانہ میں درج کرنے کے بجائے اس قابل نظر آئے گا کہ اس کو ان کی بے بصیرتی کے خانہ میں لکھا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں شاہ ولی اللہ کا زیادہ بڑا کارنامہ یہ ہوتا کہ وہ ابن خلدون(1332-1406) کے مقدمہ کے وہ صفحات پڑھتے جس میں ابن خلدون نے بجا طور پر لکھا ہے کہ کسی سلطنت کی بھی اسی طرح عمر ہوتی ہے جس طرح افراد کی عمر ہوتی ہے :إِنَّ الدَّوْلَةَ لَهَا أَعْمَارٌ طَبِيعِيَّةٌ كَمَا لِلْأَشْخَاصِ(مقدمہ، صفحہ 170)اور یہ کہ جب کوئی سلطنت بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کے بعد اس کا اٹھنا ممکن نہیں ہوتا:أنَّ الهَرَمَ إذا نَزَلَ بالدَّولةِ لا يَرتَفِعُ (مقدمہ، صفحہ 293)۔
شاہ ولی اللہ اگر اس راز کو جانتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ ان کے کرنے کا اصل کام یہ نہیں ہے کہ وہ اس دیمک زدہ ستون کو بے فائدہ طور پر سنبھالنے کی کوشش کریں جس کے لیے گرنا خود قدرت کے قانون کے تحت مقدر ہو چکا ہے۔ بلکہ ان کا کام یہ ہے کہ وہ نئے حالات کو سمجھیں اور پھر سے امت کی نئی تاریخ بنانے کی کوشش کریں جس کے عین سرے پر وہ کھڑے ہوئے ہیں۔
