شاکلۂ انسانی کا مسئلہ
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے شاکلہ(فکری مزاج) کے تحت عمل کرتا ہے۔ اس کا شاکلہ اگر شاکلۂ ضلالت ہو تو اس سے غلط عمل صادر ہوگا۔ اور اگر اس کا شاکلہ شاکلۂ ہدایت ہو تو اس سے صحیح عمل کا صدور ہوگا۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں:قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَى سَبِيلا (17:84)۔ یعنی، کہو کہ ہر ایک اپنے طریقہ پر عمل کر رہا ہے۔ اب تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ کون زیادہ ٹھیک راستہ پر ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے دنیا کا اصل مسئلہ یہ تھا کہ لوگوں کے اوپر شاکلۂ ضلالت کا غلبہ تھا۔ یہ شاکلہ مشرکانہ عقائد کے تحت بنا تھا۔ اسی شاکلۂ ضلالت کو قرآن میں فتنہ(8:39) کہا گیا ہے۔ رسول اور اصحاب رسول نے اپنی غیر معمولی جدوجہد سے اس شاکلۂ ضلالت کو توڑ دیا۔ اس کے بعد دنیا میں شاکلۂ ہدایت کا دور شروع ہوا جو توحید کے تصورپر مبنی تھا۔ یہ شاکلۂ ہدایت کم و بیش ایک ہزار سال تک دنیا پر غالب رہا۔
اٹھارویں صدی میں یہ عہد ختم ہو کر نیا عہد شروع ہوا۔ اب تاریخ انسانی میں ایک نیا دور آیا۔ یہ دور دوبارہ شاکلۂ ضلالت پر مبنی تھا جو ملحدانہ افکار کے اوپر قائم ہوا تھا۔ اسلامی دور میں ’’خدا‘‘ انسانی تفکیر کا مرکز تھا۔ یہی تصور انسانی اعمال کی تشکیل کرتا تھا۔ موجودہ زمانہ میں ’’نیچر نے خدا کی جگہ لے لی۔ اب نیچر پر مبنی افکار انسانی اعمال کی تشکیل کرنے لگے۔ شاکلۂ انسانی کی اس تبدیلی نے انسانی زندگی کے تمام عملی نقشوں کو یکسر بدل دیا۔ حتیٰ کہ جو لوگ بظاہر اب بھی خدا کو مانتے تھے وہ بھی اس عام فکری طوفان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
جدید ذہن کو پیدا کرنے میں لمبی مدت اور سیکڑوں اشخاص کاعمل شامل ہے۔ تاہم علامتی طور پر سرآئزک نیوٹن(1642-1727ء) کو اس دور کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ نیوٹن نے شمسی نظام کامطالعہ کیا۔ اس نے اس بات کی تحقیق کی کہ سورج، چاند اور سیارے کس طرح حرکت کرتے ہیں۔ فلکیاتی مظاہر کی تشریح اس نے میتھمیٹکس کے قواعد کے ذریعہ کی۔ اس نے بتایا کہ یہاں ایک قانون تجاذب(law of gravitation) ہے جس کی پابندی میں یہ اجرام خلائے بسیط میں حرکت کر رہے ہیں۔
قدیم زمانہ میں سادہ طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ سورج، چاند کی گردش اور دوسرے تمام واقعات مقدراتِ خداوندی کے تحت پیش آتے ہیں۔ قدیم انسان اس سے ناآشنا تھا کہ اپنے گردو پیش ظہور میں آنے والے ان واقعات کو قانون فطرت(law of nature) کی مادی اصطلاحوں میں بیان کرے۔
نیوٹن کی تحقیقات کی اشاعت نے پورے انسانی عقیدہ کو متزلزل کر دیا۔ مزید تحقیق کے بعد جب معلوم ہوا کہ زمین و آسمان کے تمام واقعات فطرت کے ایسے قوانین کے تحت ظاہر ہو رہے ہیں جن کو علم الحساب کی زبان میں بیان کیا جا سکتا ہے تو قدیم اعتقادیات کی بنیاد بالکل منہدم ہوگئی۔ جدید مفکرین نے اعلان کر دیا کہ واقعات اگر فطرت کے اسباب کے تحت پیش آتے ہیں تو وہ فوق الفطرت اسباب کا نتیجہ نہیں ہو سکتے
If events are due to natural causes, they are not due to supernatural causes.
نیوٹن کے بعد مفکرین کا ایک اور گروہ اٹھا جس نے انسانی ذہن کی نئی تشکیل میں مؤثر کردار ادا کیا۔ اس گروہ میں نمائندہ شخصیت چارلس ڈارون(1802-1882) کی ہے۔ نیوٹن نے طبیعی دنیا(physical world) کو قانون فطرت کے تحت حرکت کرتا ہوا دکھایا تھا۔ ڈارون نے بتایا کہ حیاتیاتی دنیا(biological world) بھی اسی طرح قانون فطرت کے تحت سفر کر رہی ہے۔ ابتدائی جرثومۂ حیات سے لے کر انسان تک جتنے بھی حیاتیاتی مظاہر اس دنیا میں دکھائی دیتے ہیں وہ سب کے سب معلوم فطری قانون کے تحت ظہور میں آتے ہیں۔
ڈارون کے اس نظریہ پراس کے بعد بے شمار مزید تحقیقات ہوئیں۔ اگرچہ اس کے ابتدائی نظریہ میں بعض تعدیلات کی گئیں۔ مگر بنیادی طور پر حیاتیاتی ارتقاء کا نظریہ تمام جدید علما کے نزدیک سائنسی مسلمہ قرار پایا۔ اس کے نتیجہ میں شعوری یاغیر شعوری طور پر ساری دنیا میں یہ بن گیا کہ انسان کی تخلیق کا خالق سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ اس قانونِ فطرت کا مظہر ہے جس کو عام طور پر ارتقاء(evolution) کہا جاتا ہے۔
جدید مفکرین کا تیسرا گروہ وہ ہے جس کی نمائندگی کا مقام کارل مارکس (1818-1883ء) کو حاصل ہوا۔ مارکس نے انسانی تاریخ کے سفر کا ایک مادی فلسفہ پیش کیا جس کو اس نے تاریخ کی علمی تعبیر(scientific interpretation) کا نام دیا۔ اس نے کہا کہ تاریخ میں خود اس کے اپنے اندرونی قانون کے تحت طبقاتی جدوجہد(class struggle) جاری رہتی ہے۔ اور یہی طبقاتی جدوجہد تاریخ کے حال اور مستقبل کی صورت گری کرتی ہے۔
قدیم زمانہ کا انسان تاریخ کو تقدیر کا کرشمہ سمجھتا تھا۔ اس کا عقیدہ تھا کہ ایک برتر خدا ہے جو تاریخی واقعات کو کسی ایک یا دوسری صورت میں تشکیل دیتا ہے۔ مگر مارکس کے مذکورہ فلسفہ اور اس فلسفہ کی بنیاد پر پیدا ہونے والے بے شمار لٹریچر نے ساری دنیا کے انسانوں کو شعوری یا غیر شعوری طور پر متاثر کیا۔ لوگ تاریخ کو ایک غیر خدائی واقعہ کی نظر سے دیکھنے لگے جب کہ اس سے پہلے وہ اس کو خدائی واقعہ کی نظر سے دیکھتے تھے۔
