ایک حدیث
حدیث کی کتابوں میں ایک روایت آئی ہے۔ اس کا مطالعہ اس ذیل میں بہت اہمیت رکھتا ہے:
’’عن يَحْيَى بْنِ هَاشِمٍ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم كَمَا تَكُونُونَ كَذَلِكَ يُؤَمَّرُ عَلَيْكُمْ‘‘ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 7391)۔ یعنی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جیسے تم لوگ ہوگے ویسے ہی تمہارے اوپر حاکم بنائے جائیں گے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہے کو نیت بشری، اور دوسری چیز ہے امارت بشری۔ کونیت بشری سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کی سوچ اور ان کی پسند و ناپسند کیا ہے۔ اور امارت بشری سے مراد ہے کسی انسانی مجموعہ کے اوپر سیاسی حاکم ہونا۔ کونیت بشری کے اعتبار سے کوئی سماج جس حالت میں ہوگا اسی کے مطابق اس سماج کے درمیان سیاسی ڈھانچہ بنے گا۔
علما ابدی طور پرکونیت بشری کے نگراں ہیں۔ ان کا کام یہ ہے کہ وہ ہر دور میں تکوین شعور یا شاکلۂ انسانی کی تصحیح کرتے رہیں۔ اور امارت انسانی یا سیاسی ڈھانچہ کی تولیت کا کام اہل سیاست کے حوالے کر دیں۔ زندگی کا نظام جب تک تقسیم عمل کے اس اصول پر چلے گا، وہ درست رہے گا۔ اور جب یہ تقسیم عمل باقی نہ رہے تو زندگی کا نظام بھی بگڑ جائے گا۔ صحیح انسانی شاکلہ سے صحیح نظام حکومت برآمد ہوتا ہے اور غلط انسانی شاکلہ سے غلط نظام حکومت۔
زندگی میں کونیت بشری کا معاملہ امارت بشری سے زیادہ اہم ہے۔ کونیت بشری کی حیثیت بنیاد کی ہے اور امارت بشری کی حیثیت اوپری ڈھانچہ کی۔ ظاہر بیں لوگوں کو اگرچہ بنیاد کے مقابلہ میں اوپری ڈھانچہ زیادہ اہم دکھائی دیتا ہے۔ مگر حقیقت بیں شخص ہمیشہ بنیاد کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکام کے مقابلہ میں علما کا درجہ زیادہ ہے اور ان کا ثواب بھی زیادہ۔
آغاز اسلام کی اس ہدایت نے امت کے لیے آئندہ سرگرمیوں کارخ متعین کر دیا۔ دور اول میں اصحاب رسول کی ایک جماعت جہاد کے عمل میں مشغول ہوئی۔ اسی کے ساتھ ان کی دوسری جماعت، مثال کے طور پر عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عمر وغیرہ، علمی اور دعوتی شعبوں میں اپنے آپ کو وقف کیے رہے۔
صحابہ کے بعد تابعین اور تبع تابعین میں بھی یہی تقسیم قائم تھی۔ لوگ مختلف علمی میدان، تفسیر، حدیث، فقہ اور ان سے تعلق رکھنے والے دوسرے علمی شعبوں میں مشغول رہے۔ تقریباً ایک ہزار سال تک یہ صورتِ حال قائم رہی۔ یہ لوگ قراء، محدثین، فقہا، علما، دعاۃ، صوفیا اور معلمین وغیرہ کی صورت میں یکسوئی کے ساتھ اپنے مخصوص میدان میں سرگرم عمل رہے۔
اسی تقسیم کار کا یہ نتیجہ تھا کہ وہ عظیم علمی اور دعوتی تاریخ بنی جو آج ملّت اسلامی کا انتہائی قیمتی اثاثہ ہے۔ اگر تمام کے تمام لوگ جہاد وقتال کی سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتے تو یقینی طور پر اسلام کی تاریخ میں ایک خلا پیدا ہو جاتا جو قیامت تک کبھی دوبارہ پر نہ ہوتا۔
