سطحی رائے

انیسویں صدی کے آغاز میں شاہ عبدالعزیز دہلوی نے اعلان کیا کہ ہندستان دار الحرب ہوگیا ہے۔ اس کے بعد500 علما نے یہ فتویٰ دیا کہ مسلمانوں پر فرض ہوگیا ہے کہ وہ انگریزوں کے خلاف جہاد بالسیف کریں۔ اس واقعہ کے ڈیڑھ سو سال بعد بھی جہاد بالسیف کی باتیں بدستور جاری ہیں۔ مولانا ابو الحسن علی ندوی ایک سفر کے دوران حمص گئے۔ اس کی روداد بیان کرتے ہوئے وہ اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھتے ہیں:

’’حمص، جو سیف اللہ خالد بن ولید کی آرام گاہ ہے، وہاں مرکز اخوان المسلمین میں29 جولائی1951ء کو میری ایک ولولہ انگیز تقریر ہوئی۔ میں نے کہاکہ   شام و حمص کے رہنے والو، عالم اسلام کو اب پھر ایک سیف اللہ کی ضرورت ہے۔ کیا آپ عالم اسلام کو اس کی کھوئی ہوئی تلوار مستعار دے سکتے ہیں۔‘‘(صفحہ390)

اس سے ظاہر ہوتاہے کہ مسلم رہنما کس طرح دور حاضر کی اصل حقیقت سے بے خبر رہے۔ انھوں نے موجودہ زمانہ میں پیش آنے والے مسئلہ کو سادہ طور پر صرف سیاسی یا حربی مسئلہ سمجھا۔ حالاں کہ وہ دراصل دور انسانی میں تبدیلی کا مسئلہ تھا۔ اپنی اس بے خبری کی بنا پر وہ اپنی جدوجہد میں اس کی رعایت نہ کر سکے اور نتیجۃً ان کی ساری قربانیاں لاحاصل ہو کر رہ گئیں۔

اہل مغرب کے کئی سو سالہ عمل نے دنیا میں ایک نیا دور پیدا کیا تھا۔ ان سے مقابلہ کرنے کے لیے اس کو جاننا ضروری تھا۔ اس نئے دور کے دو خاص پہلو تھے۔ ایک، شاکلہ انسانی میں تبدیلی۔ دوسرے معیار قوت کا بدل جانا۔ آئندہ صفحات میں ان دونوں پہلوؤں کی مختصر وضاحت کی جائے گی۔

علما کی دورِ جدید سے بے خبری کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایسا لٹریچر تیار نہ کر سکے جو جدید ذہن کو مطمئن کرنے والا ہو۔ شاہ ولی اللہ سے لے کر سید قطب تک، میرے علم کے مطابق، مسلم علما کوئی ایک کتاب بھی ایسی تیار نہ کر سکے جو آج کے مطلوبہ معیار پر پوری اترتی ہو۔ ان سب پر البرٹ ہورانی کا یہ تبصرہ صادق آتا ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی بیشتر اسلامی تحریریں عصری فکر کی ہم سطح نہیں ہیں

Most of the writings of Islam by Muslims "is not on the level of current thought. (Albert Hourani)

دورِ جدید کے علما کا جو مطبوعہ ریکارڈ ہمارے سامنے ہے، اس کی روشنی میں یہ کہنا مبالغہ آمیز نہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ جانتے ہی نہیں کہ عقلی بیان (reasoned statement)  کیا ہے۔ اس سلسلہ میں روایتی علما کا تو ذکر ہی نہیں، کیوں کہ وہ اس معاملہ کی الف ب بھی نہیں جانتے۔ خود وہ علما جو اپنے معتقدین کے درمیان’’مجمع البحرین‘‘ سمجھے جاتے ہیں وہ بھی اس سے ناواقف نظر آتے ہیں۔

مثال کے طور پر، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے سورۃ الحجرات کی تفسیر کے تحت  ’’مسلمانوں کی باہمی جنگ‘‘ کے مسئلہ پر کئی صفحہ کا حاشیہ لکھا ہے۔ اس سلسلہ میں وہ لکھتے ہیں کہ ظالم مسلم حکومت کے خلاف خروج کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ اس بارے میں فقہائے اسلام کے درمیان سخت اختلاف واقع ہوگیا ہے۔

اس ابتدائی بیان کے فوراً بعد لکھتے ہیں’’جمہور فقہا اور اہل الحدیث کی رائے یہ ہے کہ جس امیر کی امارت ایک دفعہ قائم ہو چکی ہو اور مملکت کا امن و امان اور نظم و نسق اس کے انتظام میں چل رہا ہو، وہ خواہ عادل ہو یا ظالم، اور اس کی امارت خواہ کسی طور پر قائم ہوئی ہو، اس کے خلاف خروج کرنا حرام ہے، الایہ کہ وہ کفر صریح کا ارتکاب کرے… اس پر امام نووی اجماع کا دعوی کرتے ہیں۔‘‘(تفہیم القرآن،جلد 5، صفحہ 79-80)

یہ دونوں پیراگراف ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ کیوں کہ جب ایک معاملہ میں جمہور فقہا کی ایک رائے ہو، حتیٰ کہ اس پر علما و فقہاکا اجماع ہو چکا ہو تو اس کے بارے میں یہ کہنا بالکل بے معنی ہے کہ اس مسئلہ میں فقہا کے درمیان سخت اختلاف واقع ہوگیا ہے۔

’’الجہاد فی الاسلام‘‘ مولانا ابوالاعلی مودودی کی معرکۃ الآرا کتاب سمجھی جاتی ہے۔ اس کے دیباچہ میں مولانا موصوف لکھتے ہیں’’دور جدید میں یورپ نے اپنی سیاسی اغراض کے لیے اسلام پر جو بہتان تراشے ہیں، ان میں سب سے بڑا بہتان یہ ہے کہ اسلام ایک خونخوار مذہب ہے اور اپنے پیروؤں کو خوں ریزی کی تعلیم دیتا ہے۔ اس بہتان کی اگر کچھ حقیقت ہوتی تو قدرتی طور پر اسے اس وقت پیش ہونا چاہیے تھا جب پیروان اسلام کی شمشیر خارا شگاف نے کرۂ زمین میں ایک تہلکہ برپا کر رکھا تھا اور فی الواقع دنیا کو یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ شاید ان کے یہ فاتحانہ اقدامات کسی خوں ریز تعلیم کا نتیجہ ہوں۔‘‘ (الجہاد فی ا لاسلام، دہلی، 1984، صفحہ15)

اس عبارت کا آخری حصہ اس کے پہلے حصہ کی تردید ہے۔ آخری حصہ میں مصنف خود یہ بات مان رہے ہیں کہ مسلمان اپنی شمشیر خار اشگاف لے کر اقوام عالم پر ٹوٹ پڑے۔ پھر یہی تو وہ بات ہے جس کو علما یورپ کہتے ہیں۔ ایسی حالت میں اس کو بہتان کس طرح قرار دیا جائے گا۔

سید قطب کی تفسیر قرآن بہت مشہور ہے جو چھ جلدوں میں قاہرہ سے شائع ہوئی ہے۔ مجموعی طور پر اس کے چار ہزار سے زیادہ صفحات ہیں۔ مگر پوری تفسیر غیر علمی انداز میں ہے۔ اس میں انشاء کا حسن تو یقیناً ہے، مگر حقیقی علمی استدلال سے وہ تقریباً خالی ہے۔

مثال کے طور پر وہ سورہ فصلت کی آیت41-42 کی تشریح اس طرح کرتے ہیں:

’’(وَاِنَّهٗ لَكِتٰبٌ عَزِيْزٌ لَّا يَاْتِيْهِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهٖ ۭتَنْزِيْلٌ مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍ ) وَأَنّٰی لِلْبَاطِلِ اَنْ یَدْخُلَ عَلَی ھَذَا الْکِتَابِ، وَھَوَصَادِرٌمِنَ اللہِ الْحَقِّ۔ یَصْدَعُ بِالْحَقِّ وَیَتَّصِلُ بِالْحَقِّ الَذّی تَقُومُ عَلَیْہ السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ۔ وَاَنّٰی یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ وَ ھوَ عَزِیْزٌ مَحْفُوظٌ بِأَمْرِاللہِ۔‘‘(فی ظلال القرآن، جلد 5، صفحہ3127)

یہ تفسیر محض ایک ادبی تفسیر ہے۔ اس کا علمی یا عقلی تفسیر سے کوئی تعلق نہیں۔

سورہ الاعراف میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور فرعون کا مکالمہ نقل فرمایا ہے۔ اس میں حضرت موسیٰ کی دعوت کے جواب میں فرعون اپنے درباریوں کو مخاطب کرتے ہوئے تقریر کرتاہے اور ان کو موسیٰ کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کرتا ہے جو بظاہر موسیٰ کے خطاب سے متاثر ہو رہے تھے۔ اس تقریر میں فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا کہ موسیٰ چاہتے ہیں کہ تم کو تمہارے ملک مصر سے نکال دیں (يُّرِيْدُ اَنْ يُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْ)۔ اس کی تشریح سید قطب نے ان الفاظ میں کی ہے:

أِنَّهُمْ يُصَرِّحُونَ بِالنَّتِيجَةِ الْهَائِلَةِ الَّتِي تَتَقَرَّرُ مِنْ إِعْلَانِ تِلْكَ الْحَقِيقَةِ .  أَنَّهَا الْخُرُوجُ مِنَ الْأَرْضِ .  .  أَنَّهَا ذِهَابُ السُّلْطَانِ .  .  أَنَّهَا إِبْطَالُ شَرْعِيَّةِ الْحُكْمِ .  .  أَوْ .  .  مُحَاوَلَةُ قَلْبِ نِظَامِ الْحُكْم  !  .  .  بِالتَّعْبِيْرِ الْعَصْرِيْ الْحَدِيثِ!  (في ظلال القرآن لسيد قطب - تفسير سورة الأعراف - الآية  110،3/1348۔

 وہ اس خوف ناک نتیجہ کو واضح کرتے ہیں جو اس حقیقت کے اعلان سے ناگزیر ہو جاتی ہے۔ یہ کہ یہ سرزمینِ مصر سے نکلنا ہے۔ یہ اقتدار کا خاتمہ ہے۔ یہ ہماری حکمرانی کو ناجائز ٹھہرانا ہے۔ یا یہ، دور جدید کی تعبیر کے مطابق، نظام حکومت کو بدلنے کی کوشش ہے۔

آیت کی یہ تشریح سراسر غیر علمی اور غیر عقلی ہے۔ کیوں کہ قرآن میں جب موسی اور فرعون دونوں کا کلام موجود ہے تو موسیٰ کی دعوت کو موسیٰ کے کلام سے معلوم کیا جائے گا، نہ کہ فرعون کے کلام سے۔ فرعون کی تقریر سے موسیٰ کا مقصد اخذ کرنا ایسا ہی ہے جیسے سید قطب کی تحریک کے مقصد کو جمال عبدالناصر کے بیان سے اخذ کیا جائے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom