کونیت بشری، امارت بشری
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، زندگی کی تشکیل میں کونیت بشری (عقلیت انسانی) کی حیثیت بنیاد کی ہے اور امارت بشری کی حیثیت ظاہر ڈھانچہ کی۔ کونیت بشری اگر درست ہو تو ظاہری سیاسی ڈھانچہ بھی لازماً درست ہوگا۔ کسی کی سازش یا تخریب اس کو صلاح سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس کی مثال ابو بکر صدیق اور عمر فاروق کا زمانۂ خلافت ہے۔ اور جب کونیت بشری میں بگاڑ آ جائے تو اس کے بعد کوئی صالح حکمراں بھی محض حکومت کے زور پر معاشرہ کو صالح معاشرہ نہیں بنا سکتا۔
موجودہ زمانہ میں یہ درد ناک منظر سامنے آیا ہے کہ عملی سیاست کے میدان میں علما کی تمام کوششیں مسلسل طور پر بے نتیجہ ثابت ہوئی ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، سید احمد بریلوی نے پشاور میں اسلامی حکومت (1827-31)قائم کی۔ مگر بہت کم مدت میں اس کا پورا ڈھانچہ ٹوٹ کر ختم ہوگیا۔ مولانا مفتی محمود کو موقع ملا کہ وہ پاکستان کے صوبہ سرحد میں اپنی چیف منسٹری (1970-71)کے تحت اسلام پسندوں کی وزارت بنائیں۔ مگر میعاد پوری ہونے سے پہلے ہی وہ ناکامی کے ساتھ ختم ہوگئی۔ سوڈان میں1988ء میں الاخوان المسلمون کو یہ موقع ملا کہ وہ جعفر النمیری کی حکومت میں مؤثر شرکت کر سکیں۔ مگر ان کی یہ شرکت سوڈان کے معاشرتی حالات میں کچھ بھی تبدیلی نہ لا سکی اور دوبارہ اپنی مدت کے اختتام سے پہلے ختم ہوگئی۔ پاکستان میں جنرل محمد ضیاء الحق کو ساڑھے گیارہ سال (1977-88) تک کامل حکمرانی کا موقع ملا۔ ان کو ہندو پاک دونوں ملکوں کے علما کی تائید حاصل تھی۔ مگر وہ پاکستان کے حالات میں کوئی بھی اسلامی تبدیلی لانے میں کامیاب نہ ہو سکے، وغیرہ۔
عملی سیاست کے میدان میں علما کی مسلسل ناکامی کا سبب یہ ہے کہ وہ منصوبۂ الٰہی کے خلاف چل رہے ہیں۔ ان کی ان تمام سرگرمیوں پر حضرت عائشہ کی وہ روایت صادق آتی ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔ وہ کونیت بشری کو درست کیے بغیر امارت بشری کا منصب سنبھالنا چاہتے ہیں۔ ایسی کوشش حضرت عائشہ کے قول کے مطابق، پیغمبر کے زمانہ میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتی تھی، پھر وہ موجودہ زمانہ میں کس طرح کامیاب ہو سکتی ہے۔
راقم الحروف کا اندازہ ہے کہ علما کو صحیح طور پر اس کا اندازہ ہی نہیں کہ موجودہ زمانہ میں کونیت بشری میں کیا تبدیلی آئی ہے اور آج کا وہ انسانی شاکلہ کیا ہے جس کو سمجھنا اور جس کی تصحیح کرنا وہ پہلا ضروری کام ہے جس میں انھیں سب سے پہلے مصروف ہونا چاہیے۔ تصحیح شاکلہ کے بغیر کوئی بھی عملی سیاست ہر گز کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اگلی سطروں میں اس مسئلہ کی مختصر وضاحت کی جاتی ہے۔
