دوسری عالمی جنگ کے بعد
علما کی غیر ضروری سیاسی اور حربی سرگرمیاں تو مغربی قوموں کو زیر نہ کر سکیں۔ تاہم خود مغربی قوموں کی باہمی جنگ جو دوسری عالمی جنگ(1939-45) کہی جاتی ہے۔ اس نے قوموں کو فوجی اعتبار سے اتنا کمزور کر دیا کہ ان کے لیے بیرونی ملکوں پر اپنے سیاسی قبضہ کو باقی رکھنا سخت دشوار ہوگیا۔ چنانچہ انھوں نے بیسویں صدی کے وسط میں ان ملکوں سے اپنا سیاسی قبضہ ہٹا لیا۔ اگرچہ ان کا تہذیبی اور اقتصادی غلبہ پھر بھی ان ملکوں پر باقی رہا۔
اس کے نتیجہ میں ایشیا اور افریقہ میں تقریباً پچاس مسلم ملک وجود میں آگئے جو سیاسی اعتبار سے آزاد حیثیت رکھتے تھے۔ یہاں علما کو وہی کردار ادا کرنا تھا جو اسلام میں ان کے لیے مقرر کر دیا گیا تھا۔ یعنی سیاست کو اہل سیاست کے حوالے کرکے وہ اپنے آپ کو اشاعت علوم، دعوت و تبلیغ اور اصلاح و تعمیر کے کام میں لگائیں۔ مگر دوبارہ انھوں نے یہ کیا کہ غیر ضروری طور پر وہ سیاست کے میدان میں کود پڑے۔
پہلے ان کی سیاست کا عنوان’’آزادی‘‘ تھا۔ اب انھوں نے اپنی سیاست کا عنوان قانون اسلامی کے نفاذ کو بنایا۔ مصر، پاکستان، سوڈان، شام، الجزائر، انڈونیشیا، وغیرہ مختلف ملکوں میں علما نے ایسی جماعتیں بنائیں جن کا مقصد اسلامی قانون کی حکومت قائم کرنا تھا۔ اس سیاست نے دوبارہ مسلم ملکوں کو میدان کار زار بنا دیا، اس فرق کے ساتھ کہ پہلے اگر مسلم علما کا ٹکراؤ غیر مسلم قوموں سے تھا تو اب ان کا ٹکراؤ خود مسلمانوں کے ایک طبقہ کے ساتھ پیش آگیا۔ مسلم جماعتیں ہر ملک میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے لگیں۔
علما کی ان کوششوں سے ایسا تو نہیں ہوا کہ کسی مسلم ملک میں خالص شرعی انداز کی حکومت قائم ہو جائے۔ البتہ اس کا یہ نتیجہ ضرور ہوا کہ مسلمان دوگرہوں میں بٹ کر آپس میں لڑنے لگے۔ پہلے اگر غیر مسلم طاقت مسلمان کو مارتی تھی تو اب خود مسلمان ایک دوسرے کو مارنے لگے۔ اس کا مزید نقصان یہ ہوا کہ ہر جگہ مسلم معاشرہ تخریبی سرگرمیوں کا اکھاڑا بن گیا۔
مسلم ملکوں کے علما اگر یہ کرتے کہ وہ عملی سیاست سے الگ رہ کر مسلمانوں کی اصلاح کرتے۔ ان کے اندر اسلام کی روح بیدار کرتے۔ جدید معیار پر اسلامی لٹریچر تیار کرکے مسلم نسلوں کے اندر اسلام کی طلب پیدا کرتے۔اگر وہ اس قسم کے کام کرتے تو وہ زیادہ بہتر طور پر اسلامی حکومت کے قیام میں مدد گار ہو سکتے تھے۔ وہ جب مسلم معاشرہ کو اسلامی معاشرہ بنا دیتے تو اس کے بعد اس کے اندر سے جو نظام حکومت ابھرتا وہ یقیناً اسلامی نظام حکومت ہوتا، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:كَمَا تَكُونُونَ يُوَلَّى أَوْ يُؤَمَّرُ عَلَيْكُمْ (مسندالشہاب القضاعی، حدیث نمبر 577)۔
مسلم ملکوں میں اسلامی قانون کے نفاذ میں ناکامی کا اصل سبب سیکولر حکمرانوں کا ظلم یا دشمنان اسلام کی سازشیں نہیں ہیں، جیسا کہ اسلام پسند حضرات ہمیشہ کہا کرتے ہیں۔ اس کا اصل سبب خود علم برداران اسلام کی یہ غلطی ہے کہ وہ معاشرہ کو ضروری حد تک تیار کیے بغیر اسلامی قانون کے نفاذ کی مہم لے کر کھڑے ہوگئے۔ پاکستان کا تجربہ واضح طور پر اس کی تصدیق کرتا ہے۔ پاکستان میں ایک سے زیادہ بار اسلام پسندوں کو حکومت پر جزئی یا کلی قبضہ کا موقع ملا۔ مگر وہ کسی بھی درجہ میں وہاں شریعت کو نافذ کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ مثلاً مفتی محمد محمود کے زمانہ(1970-71) میں صوبہ سرحد کی حکومت، جنرل محمد ضیاء الحق کے زمانہ(1977-88) میں پورے ملک کی حکومت۔
حضرت عائشہ کی ایک روایت اس معاملہ کے اوپر نہایت صحیح تبصرہ ہے۔ صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن(باب تالیف القرآن) میں ایک طویل روایت آئی ہے۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے:
’’إِنَّمَا نَزَلَ أَوَّلَ مَا نَزَلَ مِنْهُ سُورَةٌ مِنِ الْمُفَصَّلِ، فِيهَا ذِكْرُ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، حَتَّى إِذَا ثَابَ النَّاسُ إِلَى الْإِسْلَامِ نَزَلَ الْحَلَالُ وَالْحَرَامُ، وَلَوْ نَزَلَ أَوَّلَ شَيْءٍ: لَا تَشْرَبُوا الْخَمْرَ، لَقَالُوا: لَا نَدَعُ الْخَمْرَ أَبَدًا، وَلَوْ نَزَلَ: لَا تَزْنُوا، لَقَالُوا: لَا نَدَعُ الزِّنَا أَبَدًا‘‘ (صحيح البخاري،حدیث نمبر4707)۔یعنی، قرآن میں پہلے مفصل کی سورتیں اتریں۔ ان میں جنت اور جہنم کا ذکر تھا۔ یہاں تک کہ جب لوگ اسلام کی طرف رجوع ہوگئے، تو حلال و حرام کے احکام اترے۔ اگرشروع ہی میں یہ اترتا کہ شراب چھوڑ دو تو لوگ کہتے کہ ہم کبھی شراب نہ چھوڑیں گے۔ اگر شروع ہی میں یہ اترتا کہ زنا نہ کرو تو لوگ کہتے کہ ہم کبھی زنانہ چھوڑیں گے۔
مسلم ملکوں کے بارے میں علما نے یہ فرض کر لیا کہ چونکہ وہ مسلمان ہیں اس لیے وہ اسلامی قانون چاہتے ہیں۔ یہ مکمل طور پر ایک غلط اندازہ تھا۔ موجودہ مسلم نسلوں کی حیثیت ایک قومی مجموعہ کی ہے، نہ کہ حقیقتاً ایک دینی گروہ کی۔ حتیٰ کہ ان میں جو لوگ نماز، روزہ جیسے اعمال کرتے ہیں یا حج اور عمرہ ادا کرتے ہیں، ان کے بارے میں بھی یہ اندازہ سراسر غلط ہوگا کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ حکومت کا اقتدار علما کے ہاتھ میں ہو اور وہ ان کے اوپر شریعت کے قوانین کا نفاذ کریں۔
مسلم ملکوں میں علما کی غیر حقیقت پسندانہ سیاست نے جو صورت حال پیدا کی ہے۔ اس کا خلاصہ، حضرت عائشہ کی زبان میں یہ ہے کہ علما لوگوں کے اندر رجوع اور آمادگی پیدا کیے بغیر شراب اور زنا کے احکام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اور وہاں کے عوام ان کو جواب دے رہے ہیں کہ ہم تو تمہارے اس قانون کو کبھی اپنے اوپر نافذنہیں ہونے دیں گے۔
اس سے پہلے 11 جنوری1827ء کو سید احمد بریلوی اور ان کے رفقاء نے پشاور کے علاقہ میں اسلامی حکومت قائم کی تھی۔ سید صاحب کو اس میں امیر المومنین منتخب کیا گیا تھا۔ مگر بہت جلد آپس میں اختلاف ہوا۔ حتیٰ کہ مقامی مسلمانوں نے سید صاحب کے مقرر کردہ عالموں کو قتل کر دیا۔ اس طرح یہ اسلامی حکومت بننے کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔ معاشرہ کی تیاری کے بغیر اسلامی حکومت قائم کرنے کا یہ ناکام تجربہ بعد والوں کے لیے چشم کشا نہ بن سکا۔ وہ آج بھی اسی تجربہ کو دہرانے میں مصروف ہیں جو ڈیڑھ سو سال پہلے اپنا ناممکن العمل ہونا ثابت کر چکا ہے۔
بیسویں صدی کے نصف آخر میں تقریباً پوری مسلم دنیا میں’’اسلامی انقلاب‘‘ کی تحریکیں چلائی گئیں۔ ان تحریکوں کے قائد علما اور اسلام پسند مفکرین تھے۔ ایران، پاکستان، مصر، سوڈان، شام، الجیریا، انڈونیشیا، بنگلہ دیش اوردوسرے بہت سے مسلم علاقوں میں اس کی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ مگر یہ لوگ اپنے دور تحریک اور دور اقتدار دونوں میں صرف اسلام کو بدنام کرنے کا سبب بنے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ حکومت الٰہیہ، اسلامی نظام اور نفاذ شریعت کے نام پر اس دور میں جو تحریکیں اٹھیں وہ صرف الٹا نتیجہ پیدا کرنے والی (counter-productive) ثابت ہوئی ہیں۔
یہ ایک عبرت ناک حقیقت ہے کہ انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے نصف اول میں بہت سے بڑے بڑے دماغوں نے یہ اعلان کیا کہ اسلا م موجودہ زمانہ کے انسانی مسائل کا حل ہے۔ مثلاً سوامی ویویکانند(1863-1902ء)جارج برنارڈشا (1856-1950ء) آرنلڈ ٹوائن بی(1889-1975ء) وغیرہ۔ مگر بیسویں صدی کے نصف آخر میں کسی بھی قابل ذکر عالمی شخصیت کی زبان سے اس قسم کا اعتراف سنائی نہیں دیتا۔
اس کی وجہ موجودہ زمانہ کے نام نہاد انقلابی رہنماؤں کی غلط نمائندگی ہے۔ اس سے پہلے عالمی مفکرین کے سامنے اسلام کے دور اول کی تاریخ تھی۔ اس سے متاثر ہو کر وہ اسلام کا شاندار تصور قائم کیے ہوئے تھے۔ مگر موجودہ زمانہ کے علما اور رہنماؤں نے اسلام کے نام پر جو بے معنی تحریکیں اٹھائیں وہ صرف انسانیت کے مصائب میں اضافہ کا سبب بنیں۔ زمانہ حاضر کے ان نام نہاد نمائندگان اسلام کے نمونوں کو دیکھ کر لوگ اسلام سے بیزار ہوگئے۔ ان کا یہ تاثر ختم ہوگیا کہ اسلام موجودہ زمانہ میں انسانی فلاح کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
