خلاصہ بحث
1۔ علماءِ اسلام کو سب سے پہلے شعوری طور پر یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ انھیں عملی سیاسیات سے مکمل طور پر الگ رہنا ہے۔ ان کا اصل کام وہ ہے جو علم و فکر اور دعوت و اصلاح کے میدان میں انجام دیا جاتا ہے۔ سیاسی معاملات میں بوقت ضرورت وہ اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔ مگر سیاسی معاملات میں عملی حصہ لینا ان کے لیے کسی حال میں درست نہیں۔
2۔ علما کو مروجہ دینی تعلیم کے ساتھ لازمی طور پر عصر حاضر کے افکار سے بھی واقف ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر وہ عصر حاضر میں اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا نہیں کر سکتے۔
3۔ علما کے یہاں ایک دوسرے کے خلاف تنقید کی کھلی اجازت ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر لوگوں میں ذہنی جمود کا ٹوٹنا اور حکیمانہ بصیرت کا پیدا ہونا ممکن نہیں۔
4۔ علما کے درمیان برداشت کے مزاج کو فروغ دینا چاہیے اور اختلاف کے باوجود اتحاد کا ماحول پیدا کرنا چاہیے۔ جب تک ایسا نہ ہو، ملت کے اندر کوئی بڑا کام نہیں کیا جا سکتا۔
5۔ امت کی تعلیم و تربیت کے ساتھ دوسرا اہم کام جو علما کو انجام دینا ہے وہ دعوت الی اللہ ہے۔ یعنی غیر مسلم قوموں کو دین حق کا پیغام پہنچانا اور اس کے ضروری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کو آخری حد تک جاری رکھنا۔
