پیغمبر کی مثال
عبداللہ ابن عباس مکی دور کاایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک روز قریش کے اکابر کعبہ کے پاس جمع ہوئے۔ انھوں نے باہم مشورہ کرکے یہ طے کیا کہ اپنا ایک شخص بھیج کر محمد کو بلاؤ تاکہ ان سے بات کرکے معاملات طے کیے جا سکیں۔ پیغام پا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں آئے۔
گفتگو شروع ہوئی تو قریش کے نمائندہ نے کہا کہ آپ ہماری قوم کے لیے مصیبت بن گئے ہیں۔ آپ نے ہمارے آباء کو گالی دی۔ ہمارے دین پر عیب لگایا۔ ہماری عقلوں کو بیوقوف بتایا اور ہمارے اصنام کو گالیاں دیں:
لَقَدْ شَتَمْتَ الْآبَاءَ، وَعِبْتَ الدِّينَ، وَسَفَّهْتَ الْأَحْلَامَ، وَشَتَمْتَ الْآلِهَة َ
اس قسم کی کچھ اور باتیں بیان کرنے کے بعد قریش کے نمائندہ نے آپ سے کہا کہ آپ شتم اور تعییب اور تسفیہ کا یہ کام چھوڑ دیں۔ اس کے عوض آپ جو کچھ چاہیں وہ سب ہم آپ کو دینے کے لیے تیار ہیں۔ حتیٰ کہ اگر آپ بادشاہت چاہتے ہوں تو ہم آپ کو اپنا بادشاہ بنانے کے لیے تیار ہیں (وَإِنَّ كُنْتَ تُرِيدُ مُلْكًا مَلَّكْنَاكَ عَلَيْنَا)السيرة النبوية لابن کثیر،صفحہ 479۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ کی اس پیش کش کو قبول نہیں فرمایا۔ اور بدستور اپنے تبلیغی کام میں لگے رہے۔ جب کہ معلوم ہے کہ بعد کو مدینہ جا کر آپ نے وہاں اسلام کی حکومت قائم کی۔ ایسی حالت میں یہ سوال ہے کہ آپ نے مکہ میں حکومت کی پیش کش کو کیوں قبول نہیں کر لیا۔ جو اسلامی حکومت آپ نے پندرہ برس بعد مدینہ میں قائم کی، اس اسلامی حکومت کو آپ نے پندرہ برس پہلے ہی مکہ میں کیوں نہ قائم کر لیا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی حکومت اس طرح قائم نہیں ہوتی کہ ایک اسلامی شخصیت کسی نہ کسی طرح حکومت کی کرسی پر بیٹھ جائے۔ حکومت کے قیام کا نہایت گہرا تعلق خارجی حالات سے ہے۔ اسلامی حکومت کے قیام کے لیے وہ معاشرہ درکار ہے جہاں لوگوں کے اندر اسلام کے حق میں آمادگی پیدا ہو چکی ہو۔ جہاں وہ سیاسی اسباب جمع ہو چکے ہوں جو کسی اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہیں۔
مکی دور میں مکہ کے اندر اس قسم کے موافق اسباب جمع نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے آپ نے مکہ میں حکومت قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بعد کو مدینہ میں یہ اسباب جمع ہوگئے، اس لیے وہاں آپ نے باقاعدہ طور پر اسلام کی حکومت قائم کر دی۔
دونوں جگہوں کا فرق اس سے واضح ہے کہ مکہ میں ابو لہب کی بیوی کے لیے ممکن تھا کہ وہ آپ کی مذمت میں اس قسم کے اشعار کہے اور ان کو مکہ کی آبادی میں چل پھر کر گائے کہ محمد قابل مذمت ہیں۔ ہم نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا:
مُذَمَّمًا عَصَيْنَا، وَأَمْرُهُ أَبَيْنَا
دوسری طرف نبوت کے تیرھویں سال جب آپ اپنے رفیق ابوبکر بن ابی قحافہ کے ساتھ مدینہ پہنچے تو وہاں دونوں کا استقبال انْطَلِقَا آمِنَيْنِ مُطَاعَيْنِ(مسند احمد، حدیث نمبر13318) کے الفاظ سے کیا گیا، یعنی آپ دونوں امن کے ساتھ ہمارے سردار کی حیثیت سے مدینہ میں داخل ہوں۔ مدینہ کے بچوں نے آپ کی آمد پر یہ اشعار پڑھے کہ اے ہماری طرف بھیجے جانے والے، آپ ایک قابل اطاعت بات لے کر آئے ہیں:
أَ يُّهَا المَبْعُوثُ فِينَا … جِئْتَ بِالأَمْرِ المُطَاعْ
اسی نوعیت کی مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں بھی ملتی ہے۔ حضرت موسیٰ کی قوم (بنی اسرائیل) کے لیے مقدر تھا کہ اس کو دوبارہ اقتدار دیا جائے جس طرح اس سے پہلے اس کو اقتدار دیا گیا تھا(المائدہ، 5:20-23)۔ چنانچہ حضرت موسی کی وفات کے بعد یوشع بن نون کی قیادت میں بنی اسرائیل نے عمالقہ کے خلاف جہاد کیا اور ان کو زیر کرکے شام و فلسطین کے علاقہ میں اپنی حکومت قائم کی جو ایک عرصہ تک باقی رہی۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس حکومت کا موقع تو انھیں نصف صدی پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ ہی میں حاصل ہو چکا تھا۔ پھر اس کو نصف صدی تک موخر کیوں کیا گیا۔ حضرت موسیٰ کے زمانہ میں مصر میں یہ واقعہ ہوا کہ وہاں کا حکمراں فرعون اور اس کی پوری فوجی طاقت سمندر میں غرق کر دی گئی۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ کے لیے مصر میں میدان خالی تھا۔ وہ بنی اسرائیل کے ساتھ مصر کی راجدھانی ممفس واپس آ کر وہاں کے خالی تخت پر قبضہ کرکے بیٹھ سکتے تھے۔ اور فرعون اور اس کے لشکر کی معجزاتی ہلاکت کے بعد ان کے حق میں ملک میں مرعوبیت کی جو فضا بنی تھی اس کے تحت یقینی تھا کہ لوگ ان کی حکومت کو تسلیم کر لیں گے۔
مگر حضرت موسیٰ نے ایسا نہیں کیا۔ وہ مصر کے خالی سیاسی میدان کو چھوڑ کر اپنی قوم کے ساتھ صحرائے سینا میں چلے گئے۔ وہاں چالیس سال(1400-1440ق م) تک فاران اور شرق اردن کے درمیان بنی اسرائیل کے لوگ صحرا کی مشقتوں کو جھیلتے رہے۔ یہاں تک کہ ان کے زیادہ عمر کے تمام افراد مر گئے۔ اور صرف وہ نئی نسل باقی رہی جو صحرائی ماحول میں پرورش پا کر تیار ہوئی تھی۔
اس تاخیر کا واحد راز یہ ہے کہ مصر میں بنی اسرائیل کی جو نسل تھی وہ مخصوص اسباب سے اخلاقی زوال کا شکار ہو چکی تھی۔ یہاں تک کہ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ اپنے اور ہارون کے سوا کسی اور کے اوپر مجھے کوئی بھروسہ نہیں(المائدہ،5:25)۔ چنانچہ بنی اسرائیل کی پوری قوم کو’’وادی تیہ‘‘ میں ڈال دیا گیا تاکہ ان کے تمام ادھیڑ اور بوڑھی عمر کے لوگ ختم ہو جائیں اور نئی نسل صحرائی حالات میں تربیت پا کر اپنے اندر قابل اعتماد سیرت پیدا کرے اور پھر اقتدار پر قبضہ کرکے اسلامی حکومت قائم کر سکے۔
مذکورہ دونوں واقعات واضح طور پر ثابت کرتے ہیں کہ حکومت صرف اس وقت قائم ہوتی ہے جب کہ اس کے حق میں ضروری اجتماعی حالات فراہم ہو چکے ہوں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال یہ بتاتی ہے کہ اگر آبادی میں حقیقی سطح پر موافق فضا نہ بنی ہو تو پیغمبر بھی وہاں اپنی حکومت قائم نہیں کر سکتا۔ اگر وہ اس قسم کی ضروری فضا کے بغیر حکومت قائم کرے تو قائم ہونے کے جلد ہی بعد اس کا تختہ الٹ دیا جائے گا، اور آخر کار کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔
حضرت موسیٰ کی مثال بتاتی ہے کہ حکومت کے قیام کے لیے باکردار افراد کی ایک مضبوط ٹیم کا ہونا لازمی طور پر ضروری ہے۔ اگر ایسی ٹیم نہ ہو تو خواہ ملک میں سیاسی خلا پایا جائے اور خواہ اس سیاسی خلا کو پر کرنے کے لیے بیک وقت دو پیغمبر موجود ہوں تب بھی وہاں اسلامی حکومت کا قیام ممکن نہیں۔
اس پیغمبرانہ نظیر کو سامنے رکھ کر دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ موجودہ زمانہ میں ساری مسلم دنیا میں’’اسلامی حکومت قائم کرو‘‘ کے نام پر جو ہنگامے جاری کیے گئے، وہ صرف نادانی کی چھلانگ تھے۔ جس کا آخری نتیجہ صرف یہ ہو سکتا تھا اور یہی ہوا کہ آدمی حادثہ کا شکار ہو کر اسپتال میں پہنچ جائے اور منزل بدستور دور کی دور پڑی رہے۔
