اورنگ زیب عالم گیر

میرا خیال ہے کہ یہ روایت سب سے پہلے قابل لحاظ درجہ میں اورنگ زیب عالم گیر(1618-1707) کے زمانہ میں ٹوٹی۔ اورنگ زیب اگرچہ شاہی خاندان میں پیدا ہوا۔ مگر وہ پورے معنوں میں ایک عالم تھا۔ اس کا باپ شاہ جہاں اس کے بجائے داراشکوہ کو اپنا ولی عہد بنانا چاہتا تھا۔ اس طرح حالات اورنگ زیب کو اس طرف لے جا رہے تھے کہ وہ بادشاہ کا کردار ادا کرنے کے بجائے ایک عالم کا کردار ادا کرے۔ مگر وہ اس پر راضی نہ ہوا۔ اس نے 1658ء میں اپنے باپ شاہ جہاں کو تخت سے معزول کرکے آگرہ کے قلعہ میں قید کر دیا۔ اور اپنے بھائی دارا شکوہ کو 1659ء میں قتل کر دیا۔ اس کے بعد تقریباً نصف صدی تک وہ مغل سلطنت کا مالک بنا رہا۔

’’تاج‘‘ سے محرومی کے باوجود اورنگ زیب کو بہت سے اعلیٰ وسائل حاصل تھے۔ اگر وہ بادشاہکا رول ادا کرنے کے بجائے عالم کا رول ادا کرنے پر راضی ہو جاتا تو وہ اتنا بڑا کام کر سکتا تھا کہ آئندہ کئی صدیوں تک آنے والے علما کے لیے وہ مشعل راہ کا کام دیتا۔

اورنگ زیب کا زمانہ وہ زمانہ ہے جب کہ یورپ میں علم جدید کی بنیادیں رکھی گئیں۔ اس کے اثرات ہندستان کے سوا حل تک پہنچ چکے تھے۔ مگر اورنگ زیب اس سے بے خبر رہ کر وقتی سیاست میں پڑا رہا۔ شاہ جہاں نے ہندستان میں تاج محل بنایا تھا۔ اورنگ زیب کے لیے موقع تھا کہ وہ ہندستان میں علم محل کی تعمیر کرے۔ ملک کا سیاسی ایمپائر داراشکوہ کے حوالے کرکے وہ ملک میں ایک ایجوکیشنل ایمپائر بنا سکتا تھا۔ اگر اورنگ زیب ایسا کرتا تو وہ اسلام اور ملّت اسلام کو اس سے بہت زیادہ فائدہ پہنچاتا جو اس نے سیاست اور جنگ کے راستہ سے پہنچانے کی کوشش کی مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔

اورنگ زیب اگر’’دکن‘‘ کا سفر کرنے کے بجائے’’یورپ‘‘ کا سفر کرتا تو اس کو معلوم ہوتا کہ وہ ایک خلاف زمانہ عمل میں مبتلا ہے۔ وہ شمشیر کی سیاست کے ذریعہ دنیا میں اسلام کو سربلند کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ اب دنیا میں اس دور کا آغاز ہو چکا ہے جو بالآخر یہاں پہنچے گا کہ علم کی سیاست لوگوں کے لیے سربلندی کاذریعہ بن جائے گی۔

بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اورنگ زیب اور اس زمانہ کے دوسرے علما نہ صرف یورپ کی ترقیوں سے بے خبر تھے بلکہ وہ اس سے پہلے کی ان ترقیوں سے بھی ناواقف تھے جو مسلمان اسپین کے دور حکومت(711-1492) میں کر چکے تھے۔

اسپین میں جب مسلم سلطنت کو زوال ہوا تو وہاں کے علما اور سائنس داں اسپین سے نکل کر باہر جانے لگے۔ اس وقت ترکی میں طاقت ور مسلم خلافت(1300-1924) قائم تھی۔ اس زمانہ میں غالباً کچھ مسلم سائنس داں بھاگ کر ترکی گئے۔ مگر وہاں کے دربار میں انھیں کوئی پذیرائی نہیں ملی۔ مسلم اسپین کے زوال کے بعد 1526ء میں ہندستان میں مغل سلطنت قائم ہوئی۔ مگر مغل حکمرانوں کو یہ خیال نہیں آیا کہ وہ قدیم مسلم اسپین کے کچھ سائنس دانوں کو بلائیں اور علمی ترقی کا وہ کام ہندستان میں جاری کریں جس کا سلسلہ اسپین میں منقطع ہوگیا تھا۔

تحقیق و ریسرچ کا یہ کام صرف حکومت کی سرپرستی کے تحت ہو سکتا تھا۔ چنانچہ ان سائنس دانوں کو جب مسلم دنیا میں مواقع نہیں ملے تو وہ مغربی یورپ میں داخل ہونے لگے۔ وہاں انھیں بادشاہوں کی طرف سے سرپرستی حاصل ہوئی۔ یہی سبب ہے جس کی بناء پر اسپین کے عمل کی تکمیل مسلم دنیا میں نہ ہو سکی، وہ یورپ کی سرزمین پر ہوئی۔

اورنگ زیب بھی اپنی بے خبری اور سیاست سے غیر معمولی دلچسپی کی بنا پر اپنے زمانہ میں اس رخ پر کوئی اقدام نہ کر سکا۔ آخری مرحلہ میں سائنس کی ترقی کا کریڈٹ تمام تر یورپ کے حصہ میں چلاگیا۔

جدید دور کے تمام ابتدائی اسباب اور اس کے ابتدائی مظاہر اورنگ زیب کے زمانہ میں پیدا ہو چکے تھے۔ روایتی گھڑی کے مقابلہ میں اسپرنگ دار(spring-driven) گھڑی کا ابتدائی ماڈل1500 میں جرمنی میں تیار کر لیا گیا تھا۔ جغرافیہ اور بحریات میں ترقی کی بنا پر پرتگال کا واسکوڈی گاما1499ء میں کالی کٹ کے ساحل پر اتر چکا تھا۔ اور اس طرح اس نے یورپ اور ایشیا کے درمیان بحری راستہ کھول دیا تھا۔1510ء میں پرتگال نے گوا پر قبضہ کر لیا تھا۔ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی1600ء میں بنی اور فرنچ ایسٹ انڈیا کمپنی1664 میں قائم ہوئی۔ مگر اورنگ زیب اپنی سیاسی مشغولیت کی بنا پر ان واقعات سے بے خبر رہا۔ حالانکہ یہ واقعات بتا رہے تھے کہ آئندہ نہ صرف برصغیر ہند بلکہ سارے عالم اسلام کے لیے جو مسئلہ پیدا ہونے والا ہے وہ اپنی نوعیت میں خارجی ہے، نہ کہ داخلی (انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا، جلد 9، صفحہ392 )۔

اورنگ زیب کی پیدائش سے بہت پہلے دوسری صدی عیسوی کے آخر میں چین میں پرنٹنگ کا ابتدائی طریقہ دریافت ہو چکا تھا۔ اس میں ترقی ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ1620ء میں ایمسٹرڈم میں مشہور ڈچ پریس بنا لیا گیا۔ پریس اولاً لکڑی کے ہواکرتے تھے۔ پھر لکڑی اور لوہے کے ملے جلے پریس بنے۔ یہاں تک کہ1795ء میں انگلینڈ میں مٹل پریس تیار کیا گیا جو مکمل طور پر لوہے کا بنا ہوا تھا(انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا، جلد 14، صفحہ1054)۔

اورنگ زیب کا کمال یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ خود اپنے ہاتھ سے کتابت کرکے قرآن تیار کرتا تھا۔ مگر اورنگ زیب کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس سے پہلے1455ء میں گوٹن برگ (Gutenberg) نے بائبل کا پہلا نسخہ پریس میں چھاپ کر عیسائیت کے مشن کو دستکاری کے دور سے نکال کر مشینی دور میں داخل کر دیا ہے۔ اورنگ زیب اگر اس واقعہ کو جانتا تو اس کو معلوم ہوتا کہ قرآن کو ہاتھ سے لکھنے کے بجائے اس کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ ملک میں پرنٹنگ پریس کی صنعت قائم کرے۔

انگلینڈ کی کیمبرج یونیورسٹی1571ء میں قائم ہوئی۔ پیرس یونیورسٹی اور آکسفرڈ یونیورسٹی اس سے بھی پہلے بارھویں صدی عیسوی میں قائم ہو چکی تھی۔ اورنگ زیب کا زمانہ سترھویں صدی کا زمانہ ہے۔ اس کے لیے کرنے کا زیادہ اہم کام یہ تھا کہ وہ ہندستان میں ہر قسم کے علوم کی ایک وسیع یونیورسٹی بنائے۔ اسی طرح اس کو یہ کرنا تھا کہ وہ وقت کے موضوعات پر ریسرچ کے ادارے کھولے۔ وہ دہلی میں نیابیت الحکمت کھول کر یورپ کے علوم کے ترجمے کرائے۔ وہ علما کی ایک اکیڈمی بنائے جو وقت کے علوم کو حاصل کرے اور اس پر ریسرچ کرے۔ مگر وہ اس قسم کاکوئی بھی کام نہ کر سکا۔ اور اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ وہ تقسیم کار پر راضی نہیں ہوا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom