چند مثالیں

1۔ ابن تیمیہ(1263-1328ء) اپنی بہت سی خصوصیات کے ساتھ متکلم بھی سمجھے جاتے ہیں۔ مگر ان کی اکثر دلیلیں الشاطبی کے مذکورہ معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ کم ازکم موجودہ زمانہ میں ان کی قیمت بہت کم ہوگئی ہے۔

ابن تیمیہ نے اپنی ایک کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کے جسمانی معراج ہونے پر عقلی دلیل دی ہے۔ ان کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح نے اپنے جسم اور روح کے ساتھ آسمان کی طرف صعود کیا (إِنَّ الْمَسِیْحَ صَعِدَ اِلَی السَّمَاءِ بِبَدَنِہِ و رُوْحِہِ) اسی طرح اہل کتاب کا عقیدہ ہے کہ الیاس نے اپنے جسم کے ساتھ آسمان کی طرف صعود کیا(إِنَّ اِلْیَاسَ صَعِدَاِلَی السَّمَاءِ بِبَدَنِہِ) الْجَوَابُ الصَّحِیحُ لِمَنْ بَدَّلَ دِیْنَ الْمَسِیْحَ، جلد4، صفحہ 169-170(۔

جسمانی معراج کی یہ دلیل کسی مخصوص مخاطب کے لیے جدلی یا الزامی طور پر دلیل بن سکتی ہے جو حضرت مسیح اور حضرت الیاس کے جسمانی صعود کا عقیدہ رکھتا ہو۔ مگر اصل مسئلہ جدلی یا الزامی دلیل کا نہیں ہے بلکہ علمی اور عقلی دلیل کا ہے۔ علمی اور عقلی دلیل وہ ہے جس کی بنیاد ایسے معلوم حقائق پر رکھی گئی ہو جو اہل علم کے یہاں عمومی طور پر تسلیم شدہ ہوں۔ چونکہ یہ کوئی علمی مسلّمہ نہیں ہے کہ مسیح اور الیاس نے اپنے دنیوی جسم کے ساتھ آسمان کی طرف صعود کیا اس لیے مذکورہ دلیل عقلی دلیل بھی نہیں۔

2۔جیسا کہ معلوم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت تھی۔ حتیٰ کہ آپ مہر کے بغیر بھی کسی عورت کو اپنے نکاح میں لے سکتے تھے۔ اس کثرت ازواج پر ’’مخالفین کے اعتراض‘‘کا جواب دیتے ہوئے مولانا شبیر احمد عثمانی (1888-1949) اپنی تفسیر قرآن میں لکھتے ہیں:

’’یہ اس اکمل البشر کی سیرت کا ذکر ہے جس نے خود اپنی نسبت فرمایا کہ مجھ کو جو جسمانی قوت عطا ہوئی ہے وہ اہل جنت میں سے چالیس مردوں کے برابر ہے جن میں سے ایک مرد کی قوت سو کے برابر ہوگی۔ گویا اس حساب سے دنیا کے چار ہزار مردوں کے برابر قوت حضور کو عطا فرمائی گئی تھی۔ اس حساب سے اگر فرض کیجئے چار ہزار بیویاں آپ کے نکاح میں ہوتیں تو آپ کی قوت کے اعتبار سے اس درجہ میں شمار کیا جا سکتا تھا جیسے ایک مرد ایک عورت سے نکاح کر لے۔ لیکن اللہ اکبر، اس شدید ریاضت اور ضبط نفس کا کیا ٹھکانا ہے کہ ترپن سال کی عمر زہد کی حالت میں گزار دی۔ پھر حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد حضرت عائشہ سے عقد کیا۔ ان کے سوا آٹھ بیوائیں آپ کے نکاح میں آئیں۔ وفات کے بعد نوموجود تھیں۔ دنیا کا سب سے بڑا انسان جو اپنے فطری قوی کے لحاظ سے کم ازکم چار ہزار بیویوں کا مستحق ہو، کیا نو کا عدد دیکھ کر کوئی انصاف پسند اس پر کثرت ازواج کا الزام لگا سکتا ہے (صفحہ550)۔

مذکورہ اعتراض کا یہ جواب مخالفین کو مطمئن نہیں کر سکتا۔ اس جواب کی بنیاد اس عقیدہ پر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے چار ہزار مردوں کے برابر طاقت حاصل تھی۔ مگر مجیب اور اس کے مخاطب کے درمیان یہ امر متفق علیہ نہیں۔ اس لیے مخاطب کی نسبت سے وہ عقلی دلیل بھی نہیں بن سکتا۔

3۔ شاہ ولی اللہ دہلوی کی کتاب حجۃ اللہ البالغۃ میں’’مبحث فی الجہاد‘‘ کے عنوان سے  9صفحات کا مفصل باب ہے۔ اس باب کا آغاز اس جملہ سے ہوتا ہے—جان لو کہ سب سے زیادہ کامل شرع اور سب سے زیادہ کامل قانون وہ شریعت ہے جس میں جہاد کا حکم دیا جائے(اِعْلَمْ أَنَّ أَتَمَّ الشَّرَائِعَ و اَکْمَلَ النَّوَامِیْسَ ھُوَالشَّرْعُ الَذِّیْ یُوٴمَرفیْہِ بِالْجِھادِ)  جلد2، صفحہ170۔

جہاد(بمعنی قتال) کی اتنی زیادہ اہمیت کیوں ہے۔ اس کی وجہ صاحب کتاب یہ بتاتے ہیں کہ ایسا قتال انسانیت کے حق میں رحمت ہے۔ اہل فساد جب دلیل و حجت سے نہ مانیں تو ان کے خلاف تشدد کرنا پڑتا ہے تاکہ ان کے ظلم و شر سے انسانوں کو نجات دے دی جائے۔ اور خود ظالموں کو بزور دین صحیح اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے جو ان کے لیے خیر ہے مگر وہ اپنی نادانی کی بنا پر اس کو نہیں سمجھتے۔ یہ قتال ایسا ہی ہے جیسے کوئی ڈاکٹر جسم کے سڑے ہوئے عضو کو صاحب جسم کے علی الرغم کاٹ کر پھینک دے

’’وَالشَّرُّ الْقِلِیْلُ إِذَکانَ مُفْضِیَاً اِلَی الْخَیْرِ الْکَثِيْرِ وَاجِبٌ  فِعْلُہُ‘‘ (جلد 2، صفحہ170)۔ یعنی،اور تھوڑا شرجب زیادہ خیر کی طرف لے جانے والا ہو تو اس پر عمل کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔

قتال کے حق میں شاہ ولی اللہ کی یہ دلیل جدید انسان کے مسلّمات کے مطابق نہیں۔ اس کو سن کر جدید انسان کہے گا کہ آپ کا جذبہ صالح قابل قدر ہے۔ مگر آپ کی اسکیم سراسر نادانی کی اسکیم ہے۔ آپ کی یہ توجیہ تلواروں کی لڑائی کے زمانہ میں باوزن محسوس ہو سکتی تھی۔ مگر موجودہ زمانہ کی لڑائی میں وہ بالکل بے معنی ہے۔ کیوں کہ نئے ہتھیار بن جانے کے بعد اب لڑائی خود تمام برائیوں سے زیادہ بڑی برائی بن چکی ہے۔

آج کی لڑائی ایٹم بم کی لڑائی ہے۔ اور اگر ایٹم بم کی لڑائی چھیڑی جائے تو قدیم شمشیری جنگ کی طرح اس کا نقصان صرف مقاتل افراد تک یا جنگ کے میدان تک محدود نہیں رہے گا۔ بلکہ پورے کرۂ ارض پر اس کے اثرات پھیل جائیں گے۔ حتیٰ کہ اس کے بعد زمین ہی ناقابل رہائش ہو جائے گی۔ پھر جب خود انسانی دنیا ہی باقی نہ رہے گی تو وہ کون سا مقام ہوگا جہاں آپ جنگ جیت کر اپنا نظام خیر قائم کریں گے۔

4۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن چھ جلدوں میں ہے۔ اس کی پانچویں جلد میں سورہ الصف(آیت6) کی تشریح کے تحت انجیل برناباس کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس انجیل کے تعارف اور اس کے اقتباسات پر تفہیم القرآن میں دس صفحے شامل کیے گئے ہیں۔ اس انجیل کے بیانات مسلمانوں کے عقائد سے بہت زیادہ ملتے جلتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس میں’’محمد‘‘ کا نام بھی موجود ہے۔ مثلاً:سردار کاہن نے مسیح سے پوچھا کہ وہ آنے والا کس نام سے پکارا جائے گا۔ مسیح نے کہا کہ’’سو اس کا مبارک نام محمد ہے‘‘۔ اس انجیل میں درج ہے:

’’اے محمد، انتظار کر۔ کیوں کہ تیری ہی خاطر میں جنت، دنیا اور بہت سی مخلوق پیدا کروں گا۔ اور اس کو تجھے تحفہ کے طور پردوں گا۔ یہاں تک کہ جو تیری تبریک کرے گا اسے برکت دی جائے گی اور جو تجھ پر لعنت کرے گا اس پر لعنت کی جائے گی۔‘‘

مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کے علاوہ مولانا عبدالماجد دریا بادی وغیرہ نے بھی انجیل برنباس کے ذریعہ موجودہ مسیحیت کی تردید کی ہے اور اس کے بیانات کی بنیاد پر مسلم موقف کو صحیح ثابت کیا ہے۔ مگر علمی اعتبار سے یہ استدلال درست نہیں۔ کیوں کہ استدلال کی بنیاد صرف وہ چیز بن سکتی ہے جو متکلم اور مخاطب دونوں کے درمیان مسلّم ہو۔ انجیل برنباس کی صحت عیسائیوں کے یہاں مسلّم نہیں۔ ایسی حالت میں عیسائیوں کے مقابلہ میں وہ دلیل کس طرح بن سکتی ہے۔

مسیح کے بعد ابتدائی زمانہ میں انجیل کے بہت سے نسخے الگ الگ پائے جاتے تھے۔ دوسری صدی عیسوی میں مسیحی چرچ نے چار انجیلوں کو معتبر اور مسلّم انجیل (Canonical gospels) قرار دیا۔ اور بقیہ تمام اناجیل کو غیر قانونی اور مشکوک الصحت (Apocryphal) بتا کر رد کر دیا، انجیل برنباس انھیں رد کی ہوئی انجیلوں میں سے ایک ہے۔ اس بنا پر ہمارے اور مسیحی حضرات کے درمیان انجیل برنباس کی حیثیت ایک مسلّم بنیاد کی نہیں رہی، ایسی حالت میں کسی مسلم عالم کے لیے انجیل برنباس کی بنیاد پر مسیحیت کے مقابلہ میں کوئی دلیل قائم کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی مسیحی عالم موضوع روایات کی بنیاد پر اسلام کے بارے میں کوئی بات ثابت کرے۔

اسلام اور اسلامی تاریخ کے بارے میں موضوع روایتیں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ مسلم علما ان روایتوں کی صحت کو نہیں مانتے، اس لیے وہ اسلام کے معاملہ میں کسی بات کو ثابت کرنے کا معقول بنیاد نہیں بن سکتیں۔ یہی معاملہ برنباس کا بھی ہے۔

5۔ مولانا شبیر احمد عثمانی(1888-1949ء) کا شمار ممتاز علما دیوبند میں ہوتا ہے۔ ان کی تفسیر قرآن بہت مشہور ہے جو انھوں نے 1350ھ میں لکھ کر مکمل کی تھی۔ انھوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی امتیازی خصوصیت کو ثابت کرتے ہوئے سورہ النجم کی آیت2 کے تحت لکھا ہے:

’’جس طرح آسمان کے ستارے طلوع سے لے کر غروب تک ایک مقرر رفتار سے متعین راستہ پر چلے جاتے ہیں، کبھی اِدھر اُدھر ہٹنے کا نام نہیں لیتے۔(اسی طرح) آفتاب نبوت بھی اللہ کے مقرر کیے ہوئے راستہ پر برابر چلا جاتا ہے۔ ممکن نہیں کہ ایک قدم اِدھر یا اُدھر پڑ جائے۔ انبیاء علیہم السلام آسمان نبوت کے ستارے ہیں جن کی روشنی اور رفتار سے دنیا کی رہنمائی ہوتی ہے۔ اور جس طرح تمام ستاروں کے غائب ہونے کے بعد آفتاب درخشاں طلوع ہوتا ہے، ایسے ہی تمام انبیاء کی تشریف آوری کے بعد آفتاب محمدی مطلع عرب سے طلوع ہوا۔‘‘ (صفحہ682)

دیگر انبیاء کے اوپر پیغمبر اسلامؐ کے امتیاز کو ثابت کرنے کے لیے اس عبارت میں ایک مثال کو استعمال کیا گیا ہے۔ قدیم زمانہ میں مثال کو بطور دلیل استعمال کیا جا سکتا تھا۔ مگر موجودہ زمانہ کا انسان مثال کو دلیل کا قائم مقام نہیں سمجھتا۔ اس لیے عقلی استدلال کے طالب کے لیے مذکورہ مثال دلیل نہیں بن سکتی۔

 اس سے قطع نظر، خود یہ مثال متکلم اور مخاطب کے درمیان کوئی متفق علیہ واقعہ نہیں۔ آج کا ایک انسان ستاروں کو سورج سے چھوٹا نہیں مانتا۔ اور نہ وہ ستاروں کے غائب ہونے یا ڈوبنے کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ دونوں مظاہر موجودہ زمانہ میں اضافی ہیں، نہ کہ واقعی۔ پھر جب پیش کردہ مثال کی واقعیت پر طرفین کا اتفاق نہ ہو تو وہ مخاطب کی نظر میں دلیل کس طرح بن سکتی ہے۔

6۔مولانا ابوالاعلیٰ مودودی(1979ء۔1903ء) کی مشہور کتاب تفہیمات حصہ اول میں ایک مضمون ہے جس کا عنوان’’عقل کا فیصلہ‘‘ ہے۔ اس مضمون کا مقصد رسول کی رسالت کو عقلی دلیل کے ذریعہ ثابت کرنا ہے۔ مگر جو دلیل دی گئی ہے، وہ مذکورہ معیار کے مطابق اعتقادی دلیل ہے، نہ کہ عقلی دلیل۔

اس استد لال کا خلاصہ یہ ہے کہ پچھلے ہزاروں سال کے اندر کثرت سے انبیاء آئے۔ ایک طرف یہ ہزاروں انبیاء تھے جن کے درمیان باہمی طور پر کوئی اتصال نہ تھا۔ اس کے باوجود ان سب نے ہمیشہ ایک ہی بات کہی۔ ان سب نے ہمیشہ ایک ہی بات کی طرف دعوت دی۔ انھوں نے کبھی ایک دوسرے سے مختلف پیغام دنیا کو نہیں دیا۔ اس کے برعکس، ان کا انکار کرنے والوں کا حال یہ تھا کہ وہ ہمیشہ ایک دوسرے سے مختلف باتیں کرتے رہے۔ مدعیان رسالت متحد الخیال تھے اور مکذّبین رسالت مختلف الخیال۔

 اب دونوں فریق کا معاملہ عقل کی عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ عقل کی عدالت فیصلہ کرتی ہے کہ متحد الخیال لوگ صحیح ہیں اور ایک سرچشمہ ہدایت سے بول رہے ہیں۔ اگر ان سب کاایک سرچشمہ نہ ہوتا تو ان کے درمیان یہ کامل اتفاق ممکن نہ تھا، ان کے مقابلہ میں مختلف الخیال لوگ غلط ہیں۔ ان کاکوئی واحد ذریعہ علم نہیں۔ اسی لیے ہر ایک الگ الگ باتیں کر رہا ہے۔

دور جدید کے صاحب عقل کے لیے یہ دلیل قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ کیوں کہ اس میں جس چیز کو استدلال کی بنیاد بنایا گیا ہے وہ صرف متکلم کا عقیدہ ہے، وہ متکلم اور مخاطب دونوں کا مشترک مسلّمہ نہیں۔ جدید انسان اس طرح کے معاملہ میں صرف تاریخ کو معیار مانتا ہے۔ اور تاریخ ان میں سے کسی بات کا بھی ذکر نہیں کرتی۔ مدون انسانی تاریخ میں نہ انبیاء کا کوئی ذکر ہے۔ اور نہ ان کے متحد الخیال ہونے کا۔ اسی طرح تاریخ میں نہ مکذبین انبیاء کا ذکر ہے اور نہ ان کے مختلف الخیال ہونے کا۔

مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کا مضمون(عقل کا فیصلہ) بتاتا ہے کہ وہ اس بات کو نہیں جانتے تھے کہ موجودہ زمانہ میں عقلی استدلال کا معیار کیا ہے۔ انھوں نے نقلی دلیل پر مبنی کرتے ہوئے ایک مضمون لکھا اور اس کے اوپر عقلی استدلال کا عنوان قائم کر دیا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom