نئے دعوتی امکانات
موجودہ زمانہ میں جو نئے دعوتی امکانات پیدا ہوئے ہیں اس پر راقم الحروف نے کثیر تعداد میں کتابیں اور مضامین شائع کیے ہیں۔ یہاں مختصر طور پر اس کے کچھ پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
1۔ دور جدید کی بنیاد آزادیِ فکر پر تھی۔ اس فکری انقلاب نے جس طرح اور بہت سی چیزیں پیدا کیں، اس نے ایک نہایت اہم چیز وہ پیدا کی جس کو مذہبی آزادی کہا جاتا ہے۔ تاریخ کے تمام پچھلے زمانوں میں مذہبی تعذیب (religious persecution) کا عام رواج رہا ہے۔ موجودہ زمانہ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ مذہبی آزادی اور مذہبی تبلیغ کو ایک جائز انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا اور اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے منشور کے تحت تمام دنیا کی قوموں نے اس پر اپنے دستخط ثبت کیے۔ اس تبدیلی نے تاریخ میں پہلی بارہمارے لیے مواقع کھول دیے کہ ہم بے روک ٹوک دین حق کی تبلیغ و اشاعت کر سکیں۔
2۔ موجودہ زمانہ آزادانہ تحقیق(free inquiry) کا زمانہ تھا۔ اس کے نتیجہ میں جس طرح دوسری چیزوں کی آزادانہ جانچ کی گئی، اس طرح مذہب اور مذہبی کتابوں کو بھی آزادانہ طور پر جانچا گیا۔ مثال کے طور پر تنقید بائبل(biblical criticism) کے تحت بائبل کا جو تنقیدی مطالعہ کیا گیا اس سے خالص علمی سطح پر یہ ثابت ہوگیا کہ بائبل کا موجودہ متن تاریخی طور پر معتبر متن نہیں ہے۔ دوسری طرف قرآن پر اسی قسم کے مطالعہ نے یہ ثابت کیا کہ قرآن کا موجودہ متن تاریخی معیار سے آخری حد تک ایک معتبر متن ہے۔ جدید دور نے ایک طرف انسانی علم کے معیار پر دوسری کتب مقدسہ کا محرف ہونا ثابت کر دیا اور اس طرح خود انسانی علم کے معیار پر یہ ثابت ہوگیا کہ قرآن مکمل طور پر ایک غیر محرف کتاب ہے تقابلی مذہب کے اس مطالعہ نے دور جدید میں اسلامی دعوت کا ایک نیا دروازہ کھول دیا جو ابھی تک بند پڑا ہوا تھا۔
3۔ موجودہ زمانہ میں جو مختلف نئے علوم پیدا ہوئے۔ ان میں سے ایک وہ ہے جس کو علم الانسان (anthropology) کہا جاتا ہے۔ اس میں انسانی معاشروں کا مطالعہ خالص موضوعی انداز میں کیا گیا۔ اس مطالعہ سے یہ ثابت ہوا کہ خدا اور مذہب کا عقیدہ ہر انسانی معاشرہ میں ہمیشہ موجودہ رہا ہے۔ اس تحقیق نے یہ ثابت کیا کہ خدا اور مذہب کا عقیدہ ایک فطری عقیدہ ہے۔ وہ انسان کی خود اپنی طلب کا جواب ہے۔ اس دریافت نے اسلامی دعوت کو یہ حیثیت دے دی کہ وہ اسی طرح انسانی ضرورت کی فراہمی کا ایک کام ہے جس طرح خوراک کی فراہمی(food supply) کا نظام۔
4۔ موجودہ زمانہ میں جو سائنسی حقائق دریافت ہوئے، وہ حیرت انگیز طور پر قرآن کے بیانات کی تائید کر رہے تھے۔ وہ قرآن کی پیشین گوئی کی تصدیق تھے:سَنُرِيهِمْ آياتِنا فِي الْآفاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (41:53)۔ یعنی، عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور انفس میں بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہ حق ہے۔
اس اعتبار سے جدید سائنس ایک مسلم داعی کے لیے طاقتور علمی ہتھیار کی حیثیت رکھتی ہے۔
5۔ نئی ایجادات میں ایک چیز وہ ہے جس کو جدید مواصلات (modern communication) کہا جاتا ہے۔ اس نے تاریخ میں پہلی بار تمام فاصلے آخری حد تک گھٹا دیے ہیں اور اس طرح اس کو ممکن بنایا ہے کہ ایک داعی نہایت آسانی کے ساتھ ساری دنیا کو اپنی تبلیغ کا میدان بنا سکے۔ وسائل کے اعتبار سے یہ حدیث رسول کی اس پیشن گوئی کا ظہور ہے جس میں خبر دی گئی تھی کہ ایک وقت آئے گا جب کہ اسلام کی آواز تمام دنیا کے ہر گھر میں پہنچ جائے گی۔
6۔ میں نے اپنی کتاب’’عقلیاتِ اسلام‘‘ کے ابتدائیہ میں جون1978ء میں کہا تھا کہ’’آزاد دنیا‘‘ میں دعوت کے غیر معمولی نئے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ تاہم اشتراکی دنیا کا اس میں استثنا ہے۔ کیوں کہ وہاں کامل جبر کا نظام قائم ہے۔ اس لیے وہاں اس وقت دعوت اسلامی کے کھلے مواقع موجود نہیں ہیں۔ مگر اس تحریر کے صرف13 سال بعد حالات بدل گئے۔1991ء کے خاتمہ کے ساتھ اشتراکی ایمپائر کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ اب اشتراکی دنیا میں بھی تبلیغ دین کے وہی مواقع کھل گئے ہیں جو اس سے پہلے صرف غیر اشتراکی دنیا میں پائے جاتے تھے۔
