دائرہ عمل کی تقسیم
اب مذکورہ آیت کولیجئے۔ تفسیروں کے مطالعہ سے اس آیت کا جو پس منظر معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ غزوہ تبوک(9ھ) میں مدینہ کے کچھ مسلمان نہیں جا سکتے تھے۔ ان متخلفین کے بارے میں قرآن میں سخت آیتیں اتریں۔ اس کے بعد لوگوں کا حال یہ ہوا کہ بعض سرایا پیش آئے تو اس میں مدینہ کے تمام اہل ایمان چلے گئے۔ حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم دین سیکھنے کے لیے کوئی آدمی شہر میں باقی نہ رہا۔ اس وقت لوگوں کو عمومی خروج سے روکنے کے لیے یہ آیت اتری۔
اس آیت میں امت کو مستقل نوعیت کا ایک رہنما اصول دے دیا گیا۔ وہ یہ کہ جہاد بالسیف اور علم کے میدان کو عملی طور پر ایک دوسرے سے الگ کر دیا گیا۔ امت کے ایک طبقہ کی ذمہ داری یہ قرار پائی کہ وہ سیاسی جہاد کے شعبوں میں مشغول ہو۔ امت کے دوسرے طبقہ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ علم کے شعبوں کو سنبھالے اور اپنے آپ کو پوری طرح اس میں وقف کرے۔ کیوں کہ وقف کیے بغیر کما حقہ اس کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔
مفسرین نے مزید وضاحت کی ہے کہ علم کے شعبوں میں محنت کے لیے ٹھہرنا کوئی تخلف کی بات نہیں ہے۔ یہ علم کی طاقت سے جہاد کرنا ہے جو معروف ہتھیاروں کے ذریعہ جہاد کرنے سے زیادہ اہم ہے:
’’فَأُمِرُوا أَنْ يَنْفِرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ إلَى الْجِهَادِ وَيَبْقَى سَائِرُهُمْ يَتَفَقَّهُونَ حَتَّى لَا يَنْقَطِعُوا عَنْ التَّفَقُّهِ الَّذِي هُوَ الْجِهَادُ الْأَكْبَرُ إذْ الْجِهَادُ بِالْحَجَاجِ أَعْظَمُ أَثَرًا مِنَ الْجِهَادِبِالنِّضَالِ ‘‘(تفسیر النسفی، مدارک التنزیل، جلد1، صفحہ 717)۔ پس لوگوں کو حکم دیا گیا کہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت جہاد کے لیے نکلے اور بقیہ لوگ مدینہ میں رہ کر دین سیکھیں تاکہ وہ علم دین سے کٹ نہ جائیں جو کہ زیادہ بڑا جہاد ہے۔ کیوں کہ دلائل کے ذریعہ جہاد کی تاثیر ہتھیاروں کے ذریعہ جہاد سے بہت زیادہ ہے۔
اس اصول کا مطلب مذہب اور سیاست کی تفریق نہیں ہے۔ بلکہ خود اہل مذہب کے دو طبقوں کے دائرہ عمل کی تقسیم ہے۔ یہ تقسیم شریعت کے مزاج کے عین مطابق ہے۔
اسلام میں عورت اور مرد دونوں کا دین ایک ہے۔ دونوں یکساں طور پر دین کے مخاطب ہیں۔ مگر عملی اختیار سے دونوں کے دائرہ کار کو ایک دوسرے سے الگ رکھا گیا ہے۔ عورت کے ذمہ نسل انسانی کی تربیت ہے، اور مرد کے ذمہ عمل انسانی کا انتظام۔ اسی طرح خود مردوں میں بھی مختلف تقسیمات ہیں۔ اس میں سے ایک تقسیم یہ ہے کہ اسلام میں اہل علم اور اہل سیاست کے دائرہ کار کو، بنیادی طور پر، الگ کر دیا گیا ہے۔ اہل علم کا کام یہ ہے کہ وہ شعور انسانی کے نگراں بنیں۔ وہ ہر دور میں شعور انسانی کی تشکیل کے لیے معلم کا کردار ادا کریں۔ تاکہ عقلیت بشری یا شا کلۂ انسانی فطرت کی راہ سے بھٹکنے نہ پائے۔
جہاں تک عملی سیاست کا تعلق ہے۔ اس کے لیے مخصوص صلاحیتیں درکار ہیں۔ ہر آدمی عملی سیاست کی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کر سکتا۔ انسانی صلاحیتوں کا یہی فرق ہے جس کی بنا پر رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم نے بہ اصرار امت کو یہ اشارہ دیا کہ آپ کے بعد وہ ابوبکر صدیق کو امیر مقرر کرے۔ دوسری طرف آپ نے ابو ذر غفاری ، ابوہریرہ اور حسان بن ثابت کو یہ مشورہ دیا کہ تم کبھی کوئی حکومتی عہدہ قبول نہ کرنا۔ پیدائشی صلاحیتوں کے اس فرق کی بنا پر کچھ لوگ حکومتی شعبوں کے لیے زیادہ موزوں ہوتے ہیں۔ اسلام کا منشایہ ہے کہ سیاست کے میدان کو سیاسی صلاحیت رکھنے والوں کے حوالے کرکے بقیہ لوگوں کو اپنی اپنی صلاحیت کے اعتبار سے ملّت کے مختلف شعبوں میں مصروف کر دیا جائے۔ اس کے مطابق، اہل سیاست کا کام اگر تنظیم انسانی ہے تو اہل علم کا کام تعلیم انسانی۔
اہل علم اور اہل سیاست کے درمیان تقسیم کار کے معاملہ کو حدیث میں اور زیادہ واضح کر دیا گیا ہے۔ حدیث کی کتابوں میں، خاص طور سے کتاب الفتن کے تحت کثرت سے ایسی روایتیں آئی ہیں جن میں حکومتی بگاڑ کے ذیل میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اگر تم لوگ دیکھو کہ حکمراں بگڑ گئے ہیں تب بھی تم حکمرانوں سے ٹکراؤ نہ کرنا۔ تم اپنی تلواروں کو توڑ دینا مگر ایسا نہ کرنا کہ حکمرانوں کو ظالم قرار دے کر ان سے لڑنے لگو۔
یہ دراصل مذکورہ تقسیم عمل کو آخری اور انتہائی صورت میں بھی باقی رکھنے کی تاکید ہے۔
یعنی علما امت کو نہ صرف عام حالات میں معلم انسانی کا کردار ادا کرنا ہے۔ بلکہ اس وقت بھی انہیں اسی تعمیری کام میں لگے رہنا ہے جب کہ وہ دیکھیں کہ حکمرانوں کے اندر بگاڑ آگیا ہے۔ حکومتی نظام خواہ بظاہر کتنا ہی بگڑا ہوا نظر آئے مگر علما کو کسی بھی حال میں اپنے مفوضہ کام سے نہیں ہٹنا ہے۔
