ایک مغربی حوالہ
ملائز روتھوین(پیدائش1942) ایک انگریزی جرنلسٹ ہیں۔ انھوں نے عرب ملکوں کا سفر کیا ہے اور عربی زبان سیکھی ہے۔ مسلم مصنفین کا بھی انھوں نے مطالعہ کیا ہے۔ جدید دنیا میں اسلام کے موضوع پر ان کی ایک400 صفحہ کی کتاب ہے جو پنگوئن کی طرف سے شائع کی گئی ہے:
Malise Ruthven, Islam in the World, New York 1984, pp. 400
اس کتاب کا ساتواں باب’’اسلام اور مغربی چیلنج‘‘ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس باب میں انھوں نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے لٹریچر کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مغربی کلچر اور مغربی فکر کی اعلیٰ روایات سے بے خبر رہ کر، ان کے خیالات زیادہ تر ثانوی ذرائع پر مبنی ہیں جو سماجی مسائل کے بارے میں مضامین اور اخبارات کو پڑھ کر ادھر ادھر سے لے لیے گئے ہیں۔ وہ تنقید کے اس اصول کو کبھی بھی ہم عصر مسلم سماج پر چسپاں نہیں کرتے۔ وہ ہمیشہ اسلام کی اصولی معیاریت کا تقابل مغربی سماج کی عملی غیر معیاریت سے کرتے ہیں۔ مثل کا تقابل مثل سے نہیں کیا جاتا:
Largely ignorant of Western high cultural and intellectual traditions, his views are mostly picked up, second hand, from reading articles in newspapers about various social problems. He never applies the same canons of criticism to contemporary Muslim societies: the perfection of 'Islam' is forever compared with the actual imperfections of Western society: like is not compared with like. (p.327)
مثال کے طور پر مولانا مودودی کی کتاب الجہاد فی الاسلام میں ایک طرف قرآن و حدیث کے حوالے ہیں اور دوسری طرف مغربی واقعات کے حوالے۔ گویا اس کتاب میں آئیڈیل کا تقابل پریکٹس سے کیا گیا ہے۔ یہی سید قطب اور موجودہ زمانہ کے دوسرے مصنفین کا حال ہے۔ وہ ’’مسلمان‘‘ کا تقابل’’مغربی‘‘ سے نہیں کرتے، بلکہ اسلام کا تقابل مغربی سے کرتے ہیں۔ بین الاقوامی معاملات میں اسلام کی نمائندگی کے لیے وہ حجۃ الوداع کا خطبہ پیش کریں گے اور مغرب کی نمائندگی کے لیے مغرب کی واقعی سوسائٹی کو۔ حالانکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ حجۃ الوداع کے خطبہ کا تقابل اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے منشور سے کیا جائے۔ اور مغربی حکومتوں کا تقابل مسلم حکومتوں سے—یہی حال موجودہ زمانہ میں لکھی جانے والی تمام کتابوں کا ہے۔
