عیب خوانی، قصیدہ خوانی
مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے لوگ موجودہ زمانے میں صرف دو کلچر کو جانتے ہیں، عیب خوانی یا قصیدہ خوانی۔ اپنے مفروضہ اکابر، خواہ وہ زندہ ہوںیا مردہ،ان کے بارے میں صرف قصیدہ خوانی، اور دوسروں کے بارے میں صرف عیب خوانی۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں میں یہ کلچر اتنا عام ہے کہ شاید ہی اس میں کوئی استثنا پایا جائے۔تاہم نہ ان کی قصیدہ خوانی دلائل پر مبنی ہوتی ہے، اور نہ ان کی عیب خوانی دلائل کی زبان میں ہوتی ہے۔ وہ اپنوں کے بارے میں صرف تعریف کی زبان جانتے ہیں، اور دوسروں کے بارے میں صرف تنقیص کی زبان ۔
یہ امت کے دورِ زوال کا ظاہرہ ہے۔ امت جب اپنے زمانۂ عروج میں ہو تو وہ ہر شخص کو میرٹ کے اعتبار سے جانچتی ہے۔ وہ ہر ایک کے بارے میں میرٹ کی بنیاد پر غیر متعصبانہ رائے قائم کرتی ہے۔ خواہ وہ اپنا ہو یا اپنے دائرے سے باہر کوئی شخص۔ مگر جب امت دورِ زوال میں پہنچ جائے تو اس وقت اس کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ وہ انسانوں کو اپنے اور غیر میں تقسیم کردیتی ہے۔ اپنوں کے بارے میں اس کے پاس صرف اچھے الفاظ ہوتے ہیں، اور غیروں کے بارے میں صرف برے الفاظ۔
جب امت میں انسانوں کو میرٹ (merit)پر جانچنے کا رواج ہو، تو سمجھیے کہ امت زندہ ہے، اور جب امت کے لکھنے اور بولنے والے لوگ لفظی مدح اورلفظی ذمّ کی زبان بولنے لگیں تو سمجھیے کہ امت مردہ ہوچکی ہے۔ جب امت پر یہ وقت آجائے تو کرنے کا صرف ایک کام باقی رہتا ہے۔ وہ ہے مبنی بر افراد اصلاح۔ امت جب زندہ ہو تو مبنی بر اجتماع انداز کا ر آمد ہوسکتا ہے، لیکن جب امت اپنے دورِ زوال میں پہنچ جائے تو اس وقت افراد کو تلاش کیجیے اور افراد کی اصلاح پر اپنے کام کو مرتکز کردیجیے۔اس کے سوا کوئی اور طریقہ ہرگز نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا۔ جو لوگ امت کے دورِ زوال میں مبنی بر امت سیاسی یا سماجی انقلاب کے پروگرام بنائیں، وہ بلاشبہ فطرت کے قانون سے آخری حد تک ناواقف ہیں۔ ایسے مصلحین خود قابلِ اصلاح ہیں، وہ امت کے مصلح نہیں بن سکتے۔