قتل خویش
دورِ قدیم کے یہود کا ایک واقعہ قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے: وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِہِ یَاقَوْمِ إِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَى بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَکُمْ ذَلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ عِنْدَ بَارِئِکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ (2:54)۔ یعنی اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم ، تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔پس اپنے خالق کے آگے توبہ کرو، اور اپنےنفسوں کو قتل کرو۔ یہ تمہارے لیے تمہارے پیدا کرنے والے کے نزدیک بہتر ہے۔ تو اللہ نے تمہاری توبہ قبو ل کی۔ بیشک وہی توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں قدیم زمانے کے یہود کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے، جو خروج مصر کے بعد پیش آیا تھا۔ اس زمانے میں کچھ یہود نے شرک جلی کا ارتکاب کیا۔ اس پران کے پیغمبر موسیٰ نے کہا کہ تم لوگ اللہ کے آگے توبہ کرو، اور اپنے آپ کو قتل کرو۔ تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی۔آیت کے ان الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں توبہ قتل خویش کے معنی میں ہے۔ آیت یہ بھی بتاتی ہے کہ انھوں نے توبہ کی اور اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی۔ ایسا ہونے کے بعد ان کو جسمانی طور پرقتل کرنا، شریعت کا تقاضا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہاں قتلِ نفس کا لفظ شدت توبہ کے معنی میں آیا ہے۔ یعنی ایسی توبہ جو نفسیاتی طور پر سیلف کیلنگ (self killing) کے ہم معنی بن جائے۔
بندہ پر جب گناہ کے بعد اس قسم کی شدید ندامت طاری ہو، اور وہ اس طرح اللہ کے سامنے گریہ و زاری کرے، جیسے کہ وہ اپنے آپ کو ہلاک کرڈالے گا ۔ تو ایسی توبہ ہمیشہ گناہ سے معافی کا سبب بن جاتی ہے۔ اس طرح کی شدید توبہ کے بعد کسی کو قتل کرنا، شریعت خداوندی کے مطابق نہیں۔ ایسی شدید توبہ کے بعد انسان ایک اعلیٰ درجے کا متقی بن کر ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ وقت آتا ہے کہ وہ زیادہ اعلیٰ درجے کا مومن بن جائے۔ اس کو جسمانی قتل کرکے ختم کرنا، حکمت خداوندی کے مطابق نہیں۔