تزئین ِشیطان

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَیْتَنِی لَأُزَیِّنَنَّ لَہُمْ فِی الْأَرْضِ وَلَأُغْوِیَنَّہُمْ أَجْمَعِینَ (15:39)۔ یعنی ابلیس نے کہا، اے میرے رب، جیسا تو نے مجھ کو گمراہ کیا ہے اسی طرح میں زمین میں ان کے لیے مزین کروں گا اور سب کو گمراہ کر دوں گا۔یہ تزئین شیطان کیا ہے۔تزئین کا مطلب ہے سجانا، آراستہ کرنا، مزین کرنا(to beautify

تزئینِ شیطان یہ ہے کہ وہ انسان کو ایک ایسے گول کی طرف لگادے، جس کا حصول ممکن نہ ہو۔ یعنی غیرمطلوب کام میں انسان کو الجھا دے۔ انسان اس کے پیچھے صرف اس سوچ کی بنیاد پر لگ جائے کہ وہ بہت اہم کام ہے۔ اگرچہ وہ نتیجہ خیز کام نہ ہو۔ اس کو آج کی زبان میں شفٹ آف ایمفیسس (shift of emphasis)کہا جاسکتا ہے۔ یعنی جس پر زور دینا چاہیے، اس پر زور نہ دینا۔ اس کے بجائے اس پر زور دینا جو غیر مطلوب ہے یا جو قابلِ عمل نہ ہو۔ یہی شیطان کافریب ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے۔ آپ نے کہا: یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّکُمْ لَنْ تَفْعَلُوا، وَلَنْ تُطِیقُوا کُلَّ مَا أُمِرْتُمْ بِہِ، وَلَکِنْ سَدِّدُوا وَأَبْشِرُوا(مسند احمد، حدیث نمبر 17856) ۔ یعنی اے لوگو ، تم ہرگز نہیں کرسکتے، اور نہ طاقت رکھتے ہو، وہ سب کچھ کرنےکا جس کا تم کو حکم دیا گیا ہے، اس لیے تم اعتدال پر قائم رہو، اور ہمیشہ اللہ سے اچھی امیدیں رکھو۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کام قابلِ حصول یا نتیجہ رخی ہے ، اس کو اختیار کرو، اور جوکام ناقابلِ حصول یا کاؤنٹر پروڈکٹیو ہو، اس کو اختیار نہ کرو۔ مثلاً دین کی اسپرٹ (تقویٰ ، محبت الٰہی، معرفتِ خداوندی ، اخلاق، وغیرہ)پر اگر زور دیا جائے تو اس سے اختلاف پیدا نہیں ہوتا ہے، لیکن فارم (آمین بالجہر، رفع الیدین، تراویح کی رکعتیں، وغیرہ)پر زور دیا جائے تو نزاع پیدا ہوتا ہے۔اس طرح حکومت الٰہیہ کے معاملے کو لیجیے۔ آپ فرد کی تربیت پر زور دیں تو یہ ممکن عمل ہے، لیکن اگر آپ اس کے برعکس یہ کریں کہ موجودہ حکومت کو غیر اسلامی قرار دے کر ایک اسلامی حکومت لانے کی کوشش کریںتو یہ ایسا عمل ہے، جس کا حصول ممکن نہیں۔ یہ دیکھنے میں بہ ظاہر اچھا لگتا ہے، لیکن یہ بے نتیجہ عمل ہے،اور آپس میں نزاع (conflict) پیدا کردیتا ہے۔

شیطان تزئین کا کام کس طرح کرتا ہے۔ اُس کا جواب ’اغوا‘ کے لفظ میں موجود ہے، جس کو ابلیس نے خدا کو چیلنج کرتے ہوئےاستعمال کیا تھا۔اغوا کا لفظی مطلب انحراف (deviation) ہے۔ یہی ابلیس کا طریقہ ہے، یعنی انسان کی توجہ کو پھیرنا (distraction) ۔ اِس کوشش میں اُس کا انحصار تزئین پر ہوتا ہے۔ مثلاً ابلیس نے اپنی تزئین کے ذریعے مسلمانوں کو غیر دعوتی کاموں کی طرف متوجہ کردیا، یعنی اسلامی حکومت کا حصول ، وغیرہ۔ اِس بنا پر دعوتی عمل مسلمانوں کی مین اسٹریم میں داخل نہ ہوسکا۔شیطان کی تزئین سے بچائو کا ذریعہ دانش مندی کے ساتھ پلاننگ کرنا ہے۔

دانش مندی کیا ہے۔دراصل فطرت کے قوانین کی پابندی کرنے کا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چیزوں کو متاثر ذہن (conditioned mind)کے ساتھ دیکھنے کے بجائےاس معاملے میں سوچنا اور تجزیہ کرنا، اس کے بعد کوئی عمل کرنا۔ یعنی دانش مند آدمی کسی بھی بات کو ایز اٹ از (as it is) نہیں قبول کرتا، بلکہ وہ اس کو دیکھتا ہے، اس میں غور و فکر کرتا ہے، معاملے کی اسکروٹنی (scrutiny) کرتا ہے، پھر وہ اس کو قبول کرتا ہے یا رد (reject)کرتا ہے۔اس بنا پر وہ اس قابل ہوجاتا ہےکہ وہ کسی کی فریب کا شکار ہونے سے بچ جائے۔ اس بنا پر وہ اپنے آپ کو غیر ضروری مسائل سے بچالیتا ہے۔

جو آدمی اس معنی میں دانش مند ہو،وہ ایک ناقابلِ تسخیر انسان بن جاتا ہے۔ وہ ان کمزوریوں سے پاک ہوتا ہے، جو کسی انسان کو کمزور شخصیت (weak personality) بنانے والی ہیں۔وہ جذباتیت کا شکار نہیں ہوتا۔ اس بنا پر وہ اپنے آپ کو اس سے بچالیتا ہے کہ شیطان اس کو اپنی تزئینات کا شکار کرے، اور تباہی کے راستے پرچلا دے — عقل مند انسان وہ ہے، جو مسائل (problems) میں الجھ کر وقت ضائع کرنے کے بجائے امکان (opportunity) تلاش کرے، اور اس کو اویل (avail) کرے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom