پیرویٔ اسلام، تنفیذِ اسلام
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری زمانے میں امت کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: تَرَکْتُ فِیکُمْ أَمْرَیْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا:کِتَابَ اللَّہِ وَسُنَّةَ نَبِیِّہِ (مؤطا امام مالک، حدیث نمبر1874 )۔ یعنی میں نے تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں، تم گمراہ نہ ہوگے، جب تک ان دونوں کو پکڑے رہو گے۔وہ اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت ہے۔اس حدیث میں تمسک کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، تمسک کا مطلب ہے مضبوطی سے پکڑنا (holding fast)۔ یہ گریمر کی اصطلاح فعل لازم ( intransitive verb) ہے۔ یہی امت کے افراد کی اصل ذمے داری ہے۔ امت محمدی کے ہر فرد کو یہ کرنا ہے کہ وہ دین کو دریافت کرے،وہ مطالعہ اور تدبر کے ذریعے اپنی معرفت میں اضافہ کرے، اور اس طرح اپنے آپ کو پوری طرح دین کا پیرو بنالے۔امت کے افراد جب تک تمسک بالکتاب والسنہ کے اس اصول کو پکڑے رہیں گے، وہ کبھی گمراہ نہ ہوں گے۔یعنی خود اختیاری کے ساتھ اسلام پر عمل کرنا، اور دوسروں تک اسلام کو بطور دعوت پہنچانا (ہود، 11:88)۔
اس کے برعکس ، امت اس تعلیم کو لازم کے صیغہ ( intransitive form) میں لینے کے بجائے متعدی کے صیغہ (transitive form) میں لینے لگےتو اس کے بعدگمراہی کا آغاز ہو جائے گا۔ یعنی متمسک بنو کے بجائے بزور متمسک بناؤ ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ دین کی پیروی اختیار کرو کا نظریہ لوگوں کو ہدایت پر قائم کرتا ہے، اور دین کی تنفیذ کرو کا نظریہ لوگوں کوہدایت کے راستے سے دور کر دیتا ہے۔موجودہ زمانے میں امت کے اندر جو تشدد پیدا ہوا، اس کا سبب یہی ہے۔
بیسویں صدی میں کچھ ایسے مسلم رہنما اٹھے جنھوں نے اسلام کی سیاسی تعبیر ( political interpretation) پیش کی ۔ انھوں نے قرآن و سنت کی خود ساختہ تشریح کرکے یہ نظریہ بنایا کہ اسلام ایک مکمل نظام (complete system) ہے، اور امت کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اس نظام کو مکمل اعتبار سے زمین پر نافذ کرے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ جو دین مبنی بر فرد دین تھا، اس کو مبنی بر نظام (system-based) بنادیا۔
مگر یہ سادہ بات نہ تھی۔ جب بھی آپ دین کو پیروی کے بجائے تنفیذ کا موضوع بنائیں گے تو فورًا تشدد شروع ہوجائے گا۔کیوںکہ تنفیذ (enforcement) کے لیے حکومتی ادارے کا ہونا ضروری ہے۔یہاں پہلے سے کچھ لوگ ہوں گے جو تنفیذ کے اداروں پر قابض ہوں گے۔ اب آپ کا ذہن یہ کہے گا کہ مجھے ان قابض افراد کو ہٹانا ہے، ان کو قوتِ نافذہ کے مقام سے ہٹائے بغیر میں اپنی پسند کا نظام نافذ نہیں کرسکتا۔یہاں سے حکومت کے خلاف نزاع شروع ہوگا۔ اسلام کی سیاسی تعبیر کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ امت کے لیے دنیا اپنے اور غیر (we and they) میں تقسیم ہوگئی۔اس طرح امت کے اندر دوسروں کو اپنا دشمن سمجھنے کا مزاج پیدا ہوا۔وہ اپنے مفروضہ دشمنوں کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگے۔
اسی طرح اسلام کی سیاسی تعبیر ایک نظریہ ہے، لیکن اس نظریے کی بنیاد پر جو مائنڈ سٹ (mindset) بنتا ہے، وہ عملاًایک متشددانہ مائنڈ سٹ ہوتا ہے۔چنانچہ اس مائنڈ سٹ کا نتیجہ یہ ہوا کہ مفروضہ دشمنوں کے خلاف جنگ شروع ہوگئی، اور جب جنگ میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی تو امت کے اندر نفرت کا ایک پورا جنگل اگ آیا۔فطری طور پر وہ اپنی نفرت میں اتنے اندھے ہوگئے کہ وہ اپنے مفروضہ دشمنوں کو شکست دینے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہوگئے، خواہ جائز ہو یا ناجائز۔ اسی نفرت کا ایک ظاہرہ وہ ہے، جس کو خود کش بمباری (suicide bombing)کہا جاتا ہے۔ خودکش بمباری بلاشبہ ایک حرام فعل ہے، لیکن لوگوں نے اس کو استشہاد (طلب شہادت ) کا نام دے کر جائز کرلیا۔قرآن و سنت کے مطابق جو فعل جہنم میں لے جانے والا تھا، اس کو خودساختہ طور پر یہ حیثیت دے دی کہ وہ ان کو سیدھا جنت میں لے جانے والا ہے۔
موجودہ زمانے میں جو مسلم تشدد (Muslim militancy) پیدا ہوئی، وہ اسی سیاسی تعبیردین کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ موجودہ مسلم تشدد کو جوابی تشدد سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔اس کو ختم کرنے کے لیے جوابی آئڈیالوجی درکار ہے۔جوابی تشدد ان کو صرف ہلاک کر سکتا ہے، مگر اپنے مفروضہ عقیدے کے مطابق وہ یہ سمجھتے رہیں گے کہ وہ شہید ہوکر جنت میں جارہے ہیں۔ اس مفروضہ حقیقت کی بنا پر تشدد کے ذریعے اس کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے خاتمے کی صورت صرف یہ ہے کہ ایک طاقت ور دلیل کے ذریعے بتایا جائے کہ اسلام کی سیاسی تعبیر ایک باطل تعبیر ہے۔ اسلام کی اصل تعلیمات سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ موجودہ مسلم تشدد کو ختم کرنے کے لیے ایک نظریاتی مہم درکار ہے۔ اس کے سوا کوئی اور چیز اس کا خاتمہ کرنے والی نہیں۔
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ دورِ آخر میں امت کے اندر ایک بے حد خطرناک فتنہ پیدا ہوگا، یہ دجالیت کا فتنہ ہوگا(مسند احمد، حدیث نمبر 16265)۔دجالیت سے مرادغالباً یہی پرفریب سیاسی تعبیرِ دین کا نظریہ ہے۔یعنی اس نظریے کو ایسے خوشنما الفاظ میں پیش کیا جائے گا کہ لوگ اس کو باطل سمجھنے سے عاجز رہیں گے۔ اسلام کو مکمل نظام کا خوبصورت نام دے کر لوگوں کو دھوکے میں ڈالاجائے۔لوگوں کے اندر یہ ذہن بنایا جائے کہ اسلام ذاتی پیروی کا دین نہیں ہے، بلکہ وہ بزور نافذ کرنے کا دین ہے ۔ اس کو زمین پر مکمل معنوں میں نافذ کیا جائے۔اس طرح اسلام معرفت کا دین نہ رہا، بلکہ وہ جنگ اور تشددکا دین بن گیا۔یہی دجالیت ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلم تشدد کا اصل سبب یہی دجالیت ہے۔ اس تشدد کو صرف اس وقت ختم کیا جا سکتا ہے ، جب کہ لوگوں کو دلیل کے ذریعے یہ بتایا جائے کہ مکمل نظام کا نظریہ ایک پرفریب نظریہ ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
اس نظریے کا ایک خطرناک نتیجہ یہ ہوا کہ امت سے دعوت کا مزاج ختم ہوگیا۔ اصل دینی تصور کے مطابق امت مسلمہ داعی ہے اور دوسری قومیں مدعو ۔ اب داعی اور مدعو کے بجائے حریف اور دشمن کی نسبت قائم ہو گئی۔اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ امت کا اصل مشن دعوت الی اللہ عملاً حذف ہوگیا۔ کیوں کہ دعوت کے لیے نصح (خیرخواہی) کا ذہن درکار ہے۔ دشمنی اور دعوت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔