دجال کون
حدیث کی اکثر کتابوں میں آیا ہے کہ قیامت سے پہلے ایک شخص ظاہر ہوگا، جس کو حدیث میں دجال کہا گیا ہے(مسند احمد، حدیث نمبر 25089)۔ اسی کے ساتھ حدیثوں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تیس ایسے لوگ آئیں گے جو دجال کذّاب ہوں گے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 7121)۔ انگریزی میں دجال کو امپوسٹر (imposter) کہہ سکتے ہیں۔ دجال کا لفظ اگر چہ قرآن میں نہیں آیا ہے، لیکن معنی کے اعتبار سے وہ قرآن میں موجود ہے۔ شیطان کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ وہ تزئین کرتا ہے۔ اس لحاظ سے غالباً یہ کہنا صحیح ہوگا کہ دجال قرآن کی زبان میں مُزَیِّن اکبر ہوگا۔
دجال امت مسلمہ کا ایک فرد ہوگا، لیکن وہ امت کے بعد کے زمانے میں آئے گا۔ گویا کہ تاریخی طور پر اس زمانے میں جب کہ امت زوال کا شکار ہوچکی ہوگی۔ زوال کے زمانے میں کسی امت کے اندر جو نفسیات بنتی ہے، وہ شکست خوردگی کی نفسیات (defeatist mentality) ہوتی ہے۔ یہ زمانہ وہ ہوتا ہے جب کہ امت اس قابل نہیں رہتی کہ وہ عملاً اپنی شکست کو فتح میں تبدیل کرسکے۔ اس وقت امت کے اندر ایسے افراد ابھرتے ہیں، جو امت کو فرضی فخر (false pride) کی غذا دیتے ہیں۔ ان کی دل فریب باتوں سے متاثر ہوکر امت یہ سمجھ لیتی ہے کہ وہ لوگ اس کے مخالفین کے مقابلے میں ڈیفنڈر (defender) کا رول ادا کررہے ہیں۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امت کے دورِ زوال میں جو شخص ڈیفنڈر کی حیثیت سے ابھرے گا۔ وہ حقیقی معنوں یا مثبت معنوں میں ڈیفنڈر کا رول ادا کرنے والا نہ ہوگا، بلکہ وہ صاحبِ دجل (deceiver) ہوگا۔ یعنی امت دھوکہ کھاکر اس کو اپنا ڈیفنڈر سمجھ لے گی۔حالاں کہ وہ ڈیفنڈر نہیں ہوگا، وہ ڈیسیور ہوگا۔اس کی پرسنالٹی استحصال (exploitation) پر مبنی پرسنالٹی ہوگی۔
احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں امت کا ایک شخص ظاہر ہوگا، جو دجال کو قتل کرے گا۔ غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ یہ قتل جسمانی قتل نہ ہوگا، بلکہ وہ نظریاتی قتل ہوگا۔ یعنی اس معنی میں کہ وہ شخص دلائل کے ذریعہ اکسپوز (expose) کرکے بتائے گا کہ یہ شخص ڈیفنڈر نہیں ہے، بلکہ وہ امپوسٹر (imposter)ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ دجال ایک نہیں ہوگا، بلکہ بڑے دجال سے پہلےتیس دجال ظاہر ہوں گے۔ اس کا مطلب غالباً یہ ہے کہ دجال ایک انفرادی کردار نہیں ہوگا، بلکہ وہ ایک تسلسل کا نقطۂ انتہا (culmination) ہوگا۔ دجال سے پہلے مختلف قسم کے افراد اٹھیں گے، جو گویا بڑے دجال کے لیے ابتدائی زمین تیار کریں گے۔ مثلاً پہلے مناظر (debater) قسم کے افراد ابھریں گے، اس کے بعد ایسے افراد ابھریں گے جن کو ملت اپنے دشمنوں کے مقابلے میں ڈیفنڈر کا درجہ دے گی۔ آخر میں بڑا دجال ظاہر ہوگا، جس کو لوگ اپنا نجات دہندہ (saviour) سمجھیں گے۔
بڑا دجال کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ذاتی اعتبار سے غیر معمولی شخصیت کا مالک ہوگا۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ًاس کے زمانے میں ایسے حالات اور وسائل پیدا ہوں گے ، جو اس کو موقع دیں گے کہ وہ عملاً بڑے دجال کا درجہ حاصل کرلے۔ مثلاً یہ کہ اس کے زمانے میں عالمی کمیونی کیشن وجود میں آجائے گا۔جیسا کہ ایک موقوف حدیث میں آیا ہے :یُنَادى بصَوْتٍ لَہُ یُسْمِعُ بِہِ مَا بَیْنَ الْخَافِقَیْنِ (کنزالعمال، حدیث نمبر 39709)۔ یعنی دجال اپنی ایک ایسی آواز سے پکارے گا، جو مشرق اور مغرب کے دونوں سروں کے درمیان سنائی دے گی۔
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ عام انسان جیسا نہیں ہوگا، بلکہ وہ کوئی ہمالیائی شخصیت ہوگا ۔ بلکہ اس سے مراد امت کے زوال کی ایک حالت ہے۔ اپنے زوال کی بنا پر دجال کی باتیں امت کی نفسیات کو ایڈریس کریں گی۔ دجال کی مقبولیت اس بنا پر نہیں ہوگی کہ وہ جسمانی اعتبار سےکوئی غیر معمولی انسان ہوگا۔ بلکہ اس کا سبب امت کی زوال یافتہ نفسیات ہوگی۔ جو اپنے بگڑے ہوئے نفسیات کی بنا پر فرضی طور پر دجال کو اپنا نجات دہندہ سمجھ لے گی۔
آخری زمانے کے بارے میں پیغمبر اسلام کی ایک پیشین گوئی ان الفاظ میں آئی ہے :لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى لَا یُقَالَ فِی الْأَرْضِ:اللہُ،اللہُ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 148)۔ یعنی قیامت نہیں آئےگی، یہاں تک کہ زمین پر اللہ اللہ نہیں کہا جائے گا۔ اس سے مراد دنیا کی عام قومیں نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد امت مسلمہ ہے۔ اللہ اللہ نہ کہنے کا مطلب زبان سے دہرانا بند کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا امت مسلمہ کے لیے پرائم کنسرن کی حیثیت سے باقی نہیں رہے گا۔بلکہ دوسری دوسری چیزیں ان کے نزدیک پرائم کنسرن کی حیثیت اختیار کرلیں گی۔
اللہ سے حقیقی تعلق کا ختم ہونا ایک تاریخی عمل (historical process) کا معاملہ ہے۔ اسلام کے دورِ اول میں ایشیا اور افریقہ میں جب مسلمانوں کی بڑی بڑی سلطنتیں قائم نہیں ہوئی تھیں، اس وقت مسلمانوں کا اعتماد صرف اللہ پر ہوتا تھا۔ اس کے بعد جب مسلمانوں کی سلطنتیں قائم ہوگئیں تو مسلمانوں کا اعتماد اللہ پر کمزور ہوگیا۔ اب وہ مسلم سلطنتوں پر شعوری یا غیر شعوری طور پر اعتماد کرنے لگے۔یہ شفٹ آف ایمفیسس کا معاملہ تھا، یعنی ٹرانسفر آف سیٹ فرام گاڈ ٹو مسلم پولٹکل پاور :
transfer of seat from God to Muslim political power
اس کے بعد انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں جب مغربی قوموں کو عروج حاصل ہوا، اور مغل ایمپائر اور ٹرکش ایمپائر جیسی مسلم سلطنتیں ختم ہوگئیں۔ اس کے بعدمسلمان عملاً مسلم امت کی صورت میں باقی رہے، جس کے سیاسی غلبے کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ سیاسی خلا کا نتیجہ یہ ہوا کہ خوف کی نفسیات مسلمانوں کے لیے بائنڈنگ فورس بن گئی۔ اب ان کا اعتماد صرف اپنی ملت پر قائم ہوگیا۔
اس سیاسی خلا کو پر کرنے کے لیے مسلمان زیادہ سے زیادہ اپنی ملت کی طرف مائل ہونے لگے۔ ان کے اندر شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ ذہن بنا کہ ان کے لیے اب اعتماد کا ذریعہ ان کی اپنی ملت ہے۔ اس طرح مسلمان نفسیاتی اعتبار سے دوسری قوموں سے دور اور مسلمانوں سے قریب آنے لگے۔اس کے نتیجے میں فطری طور پر مسلمانوں کا یہ مزاج بنا کہ مسلم اور غیرمسلم کے اعتبار سے جو آدمی مسلمانوں کی یک طرفہ حمایت کرے، وہ ان کا اپنا آدمی ہے، اور جو مسلمانوں کی یک طرفہ حمایت نہ کرے، وہ عملاً ان کے مفروضہ دشمن کا ساتھی ہے۔
یہی وہ قومی فضا ہے جس میں دجال ابھرے گا۔ وہ مسلمانوں کی اس نفسیات کو فیڈ (feed) کرے گا۔ وہ تمام مسائل میں یک طرفہ طور پر غیر مسلم قوموں کو اور غیر مسلم میڈیا کو ذمہ دار ٹھہرائے گا، اور مسلمانوں کو یک طرفہ طور پر بے قصور ظاہر کرے گا۔ اس بنا پر مسلمان یہ سمجھیں گے کہ وہی ان کا حقیقی رہنماہے۔ وہی ان کے مفاد کی حٖفاظت کرنے والا ہے۔ یہ مزاج بڑھ کر یہاں تک پہنچے گا کہ وہ دجا ل کو اپنا نجات دہندہ سمجھ لیں گے۔
دجال کے فعل کو دجل (to deceive) کیوں کہا گیا ۔ کیوں کہ وہ اسلام کے نام پر مسلمانوں کو بھٹکائے گا۔ وہ اسلام کے نام پر غیر اسلام کو فروغ دے گا۔ دجال کی پوری سرگرمیوں کا مرکز یہ ہوگا کہ وہ مسلمانوں کے مفروضہ دشمنوں کو عوامی زبان میں للکارے گا۔ وہ اسٹیج کے میدان میں بظاہر مفروضہ دشمنوں کو شکست دے گا۔ غلط طور پر مسلمانوںکو یہ باور کرائے گاکہ ہم نے تمھارے دشمنوں کو زیر کردیا ہے۔ مگر دجال کا یہ سارا معاملہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلام دشمنی کا معاملہ ہوگا۔ کیوں کہ اس کی باتیں مسلمانوںکی توجہ کو اللہ کے بجائے ، غیر اللہ کی طرف مائل کردیں گی۔
مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کرنے والا وہ ہے، جس کی رہنمائی سے مسلمانوں میں اللہ پر یقین بڑھے۔ ان کے اندر اللہ کا تقویٰ پیدا ہو، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرنے والے بن جائیں۔ ان کو سب سے زیادہ شوق جنت کا ہو۔ ان کا سب سے زیادہ اہتمام آخرت کے لیے ہوجائے۔ وہ اپنی زندگی میں وَلَمْ یَخْشَ إِلَّا اللَّہَ (9:18)کے مصداق بن جائیں۔ یعنی اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرنا۔
مگر دجال کی منفی (negative)باتوں سے فریب خوردہ ہو کر ان کا حال برعکس طور پر یہ بن جائے گا کہ وہ دوسری قوموں سے نفرت کرنے لگیں گے۔ دجال ان کے اندر سے انسانی خیرخواہی کا کلی خاتمہ کردے گا۔وہ دوسری قوموں کو اپنا دشمن اور سازشی سمجھنے لگیں گے۔ وہ غلط طور پر یہ فرض کرلیں گے کہ ان کے ہر مسئلے کی ذمہ دار دوسری قومیں ہیں۔اس طرح وہ اسلام کے نام پر غیر اسلامی سرگرمیوں میں مبتلا ہو جائیں گے۔ اس کے نتیجے میں ان کے اندر دعوت الی اللہ کا ذہن بالکل ختم ہوجائے گا۔ کیوں کہ دعوت الی اللہ کی اسپرٹ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کہ مسلمانوں کے اندر عام انسان کے لیے یک طرفہ طور پر خیرخواہی کا جذبہ ہو۔