ضمیر، ایگو

دہلی کے جسولا ویہار کے علاقہ میں ایک تقریری پروگرام کے تحت جانا ہوا۔ نظام الدین سےاوکھلا ویہار تک کے اس سفر میں مندرجہ ذیل افراد میرے ساتھ تھے: برادرم محمد خالد ندوی، مسجد کے امام قاری محمد سمیع اللہ صاحب، اور واحد علی انجینئر صاحب۔

10 جون 1998 کی شام کو میں اس مسجد میں پہنچا، جس کو عام طور پر جسولا ویہار کی مسجد کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کو میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، اور نہ اس کے بارےمیں مجھے کوئی واقفیت تھی۔ عشاء کے وقت جب میں وہاں پہنچا تو یہ میرے لیے ایک غیر متوقع منظر تھا۔ میں نے دیکھا کہ یہ مسجد جس کا نام اقرأ مسجد ہے کسی آبادی میں نہیں ہے، بلکہ وہ ایک کھلی جگہ پر ہے۔ گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ یہاں مسجد کے چاروں طرف مسلمانوں کی ایک بڑی کالونی تھی اس کالونی کے اندر انھوں نے مسجد بنائی تھی۔ مگر یہ کالونی غیر قانونی تھی اور دلی کے ماسٹر پلان کے خلاف بنائی گئی تھی۔ چنانچہ 1989 میں راجیوگاندھی کی حکومت کے زمانہ میں اس قسم کی دوسری بہت سی کالونیوں کی طرح اس کو بھی مکمل طور پر توڑ دیاگیا۔دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی(ڈی ڈی اے) کے عملہ نے بلڈوزر کے ذریعہ مسلمانوں کے ہزاروں مکانوں کو ڈھا دیا۔

آخر میں مسجد کی باری تھی مگر یہاں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ D.D.A. کا ایک ملازم جس کا نام پنڈت شرما تھا، وہ بلڈوزر کا آپریٹر تھا۔ اس نے مسجد کو بلڈوز کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے افسر نے سختی کے ساتھ حکم دیا ،مگر وہ راضی نہیں ہوا۔ افسر نے دھمکی دی کہ میں تم کو ملازمت سے برخواست کردوں گا۔پنڈت شرما نے کہا کہ آپ جو چاہیں کریں، مگر میں مسجد پر اپنا بلڈوزر نہیں چلا سکتا۔ چنانچہ پوری کالونی مکمل طورپر ڈھادی گئی۔ مگر یہ مسجد اکیلی عمارت کی حیثیت سے کھڑی رہی۔ ایک عرصہ تک یہ مسجد غیر آباد پڑی ہوئی تھی۔ اب قاری محمد سمیع اللہ صاحب نے اس کو آبادکیا ہے۔ انھوں نے اس کی نئی تعمیر کرکے وہاں ایک مدرسہ بھی قائم کردیا ہے، جس کا نام مدرسة الحراء ہے۔

ایک طرف جسولا ویہار کی یہ مسجد ہے جس کو توڑنے سے ہندو انکار کردیتا ہے، دوسری طرف ایودھیاکی مسجد ہے جس کو ہندو اقدام کرکے توڑ ڈالتاہے۔ یہ فرق کیوں۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ جسولاویہار کا ہندو ایک نارمل ہندو تھا۔ جب کہ ایودھیا کا ہندو ایک غیر نارمل ہندو تھا، جس کی انا کو نااہل مسلم لیڈروں نے اپنی اشتعال انگیز تقریروں سے بھڑکا دیا تھا۔ گویا کہ جسولا ویہار کا ہندو اگر مسٹر ہندو تھا تو ایودھیا کا ہندو مسٹر ایگو تھا۔ سیکڑوں سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ مسٹر ہندو نے کبھی کسی مسجد کو نہیں توڑا۔ مگر جب مسٹر ہندو کو بھڑکاکر مسٹر ایگو بنا دیا جائے تو اس کے بعد وہ ہوگا، جو 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں پیش آیا۔

اجتماعی زندگی میں کامیابی کا راز یہ ہے کہ آپ دوسروں کی انا (ego) کو نہ بھڑکائیں۔ جس انسان کا ایگو بھڑکایا نہ گیا ہو وہ اپنے ضمیر کے تابع ہوتاہے ،اور جس انسان کا ایگو بھڑکا دیا جائے، وہ اپنے نفس امارہ (یوسف، 12:53)کے تابع بن جاتا ہے، اور جو انسان اپنی نفس امارہ کے تابع بن جائے،وہ گویا ایک حیوان ہے، اگرچہ بہ ظاہر وہ ایک انسان دکھائی دیتا ہو۔مذکورہ واقعہ گویا اس آیت کی تفسیر ہے، جس میں یہ کہا گیاہے کہ: اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو توان کی کوئی تدبیر تم کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔ وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا (3:120)۔

اس آیت کے مطابق، اس دنیامیں اصل مسئلہ کید (سازش) کی موجودگی نہیں ہے، بلکہ صبر کی غیر موجودگی ہے۔ اہل ایمان اگر صبر کی روش اختیار کریں تو ان کے لیے خداکی ضمانت ہے کہ ان کے خلاف سازش کرنے والوں کی سازش یقینی طورپر بے اثر ہو کر رہ جائے گی۔ البتہ اگر اہل ایمان بےصبری کی روش اختیار کریں تو سخت اندیشہ ہے کہ وہ فریقِ ثانی کی سازش کی زد میں آجائیں۔

مذکورہ دونوں مثالیں اس کا کھلاہوا نمونہ ہیں۔ ایودھیا کی مسجد کے معاملہ میں جذباتی لیڈروں کی رہنمائی میں مسلمانو ں نے غیر صابرانہ روش اختیار کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایودھیا کی مسجد کو کچھ مشتعل ہندوؤں نے توڑ دیا۔ اس کے برعکس، دہلی کی مسجد کے معاملہ میں کوئی جذباتی لیڈر اشتعال دلانے کے لیے موجود نہ تھا۔ یہاں فطرت نے مسلمانوں کی رہنمائی کی۔ چنانچہ انھوں نے صبر اور خاموشی کی روش اختیار کرلی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دہلی کی مسجد جہاں تھی وہیں بدستور قائم رہی، بلکہ سرکاری حکم کے باوجود ہندو نے اس کو توڑنے سے انکار کردیا۔

جسولا ویہار کی مسجد اور ایودھیا کی مسجد کا تقابل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دونوں کلّی طورپر ایک دوسرے کے مشابہ ہیں۔ تمثیل یا تقابل کا یہ مطلب کبھی نہیں ہوتا کہ دونوں کے درمیان کلی یکسانیت پائی جائے۔تمثیل یا تقابل ہمیشہ دو چیزوں کے درمیان جزئی مشابہت کے اعتبار سے ہوتا ہے، نہ کہ کلی مشابہت کے اعتبار سے۔ جسولا ویہار کی مسجد اور ایودھیا کی مسجد کے درمیان جو تقابل کیا گیا ہے، وہ صرف ایک پہلو کے اعتبارسے ہے، اور وہ یہ ہے کہ دونوں مسجدوں کا معاملہ یکساں طورپر ہندو کے ساتھ پیش آتا ہے، مگر ایک ہندو مسجد کو توڑ ڈالتاہے اور دوسرا ہندو مسجد کو نہیں توڑتا۔

زندگی کے معاملات کو سمجھنے کے لیے تقابل (comparison)کا طریقہ نہایت اہم ہے۔ تقابل ہی سے زندگی کی زیادہ گہری حقیقتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ بشرطیکہ کہ تقابلی مطالعہ کرنے والا آدمی کھلے ذہن کے ساتھ یہ مطالعہ کرے۔ اور مطالعہ کا جو نتیجہ نکلے اس کو وہ بلا بحث مان لے، خواہ یہ نتیجہ اس کے خلاف ہو، اور خواہ یہ نتیجہ اس کے پورے نظریاتی ڈھانچہ کو ڈھا دینے والا ہو— کوئی آدمی جب ایک سچائی کا انکار کرتاہے تو وہ سمجھتاہے کہ میں ایک خارجی چیز کا انکار کررہا ہوں، حالانکہ وہ خود اپنا انکار کررہا ہوتا ہے، اگرچہ وہ اپنی نادانی کی بنا پر اس کو نہیں جانتا۔

ایک مثال

مشرقی یوپی کے ایک شہر کا واقعہ ہے۔ اس شہر میں ایک مسلمان نےاپنے لیے گھر بنایا۔مکان کے ساتھ ایک خالی زمین بھی ان کے پاس میں تھی۔ اُن کے پڑوس میں ایک ہندو ٹھیکہ دار تھا۔ اس ہندو ٹھیکہ دار کا دعوی تھا کہ یہ زمین اُس کی ہے۔ چنانچہ اُس نے شہر کے کٹر ہندوؤں سے مل کر انھیں بھڑکایا۔ یہاں تک کہ ایک دن ہندوؤں کی ایک بھیڑ گھر کے سامنے سڑک پر اکٹھا ہوگئی، اور نعرے لگانے لگی۔

مذکورہ مسلمان کے پاس اُس وقت دو بندوقیں تھی۔ مگر انھوں نے بندوق نہیں اٹھائی۔ وہ تنہا اور خالی ہاتھ گھر سے نکل کر باہر آئے۔ انھوں نے نعرہ لگانے والی بھیڑ سے کچھ نہیں کہا۔ اُنھوں نے صرف یہ پوچھا کہ آپ کا لیڈر کون ہے۔ ایک صاحب جن کا نام مسٹر سونڈ تھا، آگے بڑھے اور کہا، وہ میں ہوں، بتائیے کہ آپ کو کیا کہنا ہے۔ مسلمان نے بھیڑ سےکہا کہ آپ لوگ یہاں ٹھہریے اور مسٹر سونڈ کو لے کر گھر کے اندر آگئے۔ اُن کو کمرہ میں لا کر اُنھیں کرسی پر بٹھا دیا۔

اس کے بعد مسلمان نے کہا کہ مسٹر سونڈ آپ لوگ کس سلسلہ میں یہاں آئے۔ مسٹر سونڈ نے غصہ میں کہا کہ آپ نے ایک ہندو بھائی کی زمین پر قبضہ کرلیا ہے، ہم اسی کے لیے یہاں آئے ہیں۔ مسلمان نے نرمی کے ساتھ کہا کہ آپ جانتےہیں کہ زمین کاغذ پر ہوتی ہے۔ زمین کا فیصلہ کاغذ کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ آپ ایسا کیجیے کہ میرے پاس جو کاغذات ہیں، ان کو لے لیجیے، اور ٹھیکہ دار صاحب کے پاس جو کاغذات ہیں ،اُن کو بھی لے لیجیے، اور پھر نہایت اطمینان کے ساتھ اپنے گھر چلے جائیے۔ اس معاملہ میں میں آپ ہی کو جج بناتا ہوں۔ آپ کاغذات کو دیکھنے کے بعد جو بھی فیصلہ کردیں وہ مجھے بلا شرط منظور ہوگا۔

یہ سن کر مسٹر سونڈ بالکل نارمل ہوگئے۔ وہ غصہ کی حالت میں اندر گئے تھے، اور ہنستے ہوئے باہر نکلے۔ اُنھوں نے سڑک پر کھڑی ہوئی بھیڑ سے کہا کہ تم لوگ اپنے گھروں کو واپس جاؤ۔ میاں جی نےخود ہم کو جج بنا دیا ہے۔ اب ہم دونوں کے کاغذات دیکھ فیصلہ کریں گے۔ مسٹر سونڈ نے اس کے بعد گھر جاکر دونوں کے کاغذات کو دیکھا اور معاملہ کو اچھی طرح سمجھا۔ چند دن کے بعد اُنھوں نے صدفی صد مسلمان کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیا۔

مذکورہ مسلمان اگر اپنی بندوق کو لے کر بھیڑ کے اوپر گولی چلاتے تو وہ بھیڑ کے نفس امارہ (انانیت) کو جگا دیتے۔ اور پھر یقینی طورپر سارا معاملہ مسلمان کے خلاف ہوجاتا۔ مگر جب انھوں نے گن(gun) کے بجائے معقولیت کو استعمال کیا تو اُس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کا نفس لوّامہ (القیامۃ، 75:2) جاگ اٹھا ، نفس لوامہ یعنی ضمیر۔ اور جب ضمیر جاگ اٹھے تو اس کا فیصلہ ہمیشہ انصاف کے حق میں ہوتا ہے، ضمیر کبھی ظلم اور بے انصافی کا فیصلہ نہیں کرتا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom