ایک واقعہ
جب میں لکھنؤ میں تھا، اس وقت میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی۔ ان کانام تھا ڈاکٹر سمیع اللہ خاں۔ یہ ملاقات لکھنؤ میں گومتی کے پل پر ہوئی تھی۔ فلسفے میں انھوں نے ڈاکٹریٹ کیا تھا، اور برٹرینڈ رسل پر ریسرچ کیا تھا۔ وہ اپنی تعلیم کے بعدملحد ہوچکے تھے۔ اس گفتگو کا موضوع خدا کا وجود تھا۔ یعنی یہ کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا: خدا کو ثابت کرنے کے لیے آپ کے پاس کرائٹیرین کیا ہے۔ میری زبان سے نکلا، وہی کرائٹیرین (criterion)جو آپ کے پاس کوئی چیز ثابت کرنے کے لیے ہو۔ وہ آدمی بہت زیادہ پڑھا لکھا تھا۔ وہ ایک جملے میں چپ ہوگیا۔ اس کے بعد میری اس سے دوبارہ ملاقات نہیں ہوئی۔
میرے جواب کا جو پس منظر تھا، اس سے وہ بخوبی طور پر واقف تھے۔ وہ پس منظر یہ تھا کہ سائنس نے حقیقت کی دریافت کا ایک لمبا سفر کیا ہے۔ اس سفر کا موجودہ مقام وہ ہے، جس کو کوانٹم فزکس یا کوانٹم میکانکس کہا جاتاہے۔ کوانٹم فزکس جس آخری تحقیق پر پہنچی ہے، وہ یہ ہے کہ میٹر (matter) اپنے آخری تجزیے میں کمیت کے اعتبار سے غیر مرئی (invisible) ہوجاتا ہے۔ وہ اتنا زیادہ غیر مرئی ہوجاتا ہے کہ اس کے وجود کو نہ براہ راست دیکھا جاسکتا ہے، اور نہ ہی مائکرو اسکوپ کے ذریعے۔ اس کو صرف اس کے اثر (effect) کے ذریعے پہچانا جاتا ہے۔ اس بنا پر اس کو امکان کی لہریں (waves of probability ) کا نام دیا گیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ قصہ صرف ایک انسان کا نہیں، یہ جدید دور کے تمام انسانوں کا ہے۔ آج کا انسان جس نے سائنس اور جدید دریافتوں کا مطالعہ کیا ہے، وہ اس بات کو جان چکا ہے کہ جس دلیل کے ذریعے انسان میٹر تک پہنچتا ہے، ٹھیک اسی دلیل سے انسان خالق تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ بد قسمتی سے موجودہ زمانے میں اس معاملے میں نیگیٹو سوچ رکاوٹ بن گئی ہے۔ اگر نیگیٹو سوچ حائل نہ ہو تو جدید دور کا انسان وہی بات کہے گا، جو ڈاکٹر سمیع اللہ نے امکانی طو رپر کہی ہے۔