اوَّلیات، تفردات
خلیفہ دوم عمر فاروق نے بعض چیزوں میں نئے فیصلے لیے۔ جن کی مثال ان سے پہلے مسلمانوں میں موجود نہ تھی۔ ان کے اس قسم کے فیصلوں کو اولیات عمر کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ابن تیمیہ الحرانی نے کچھ امور میں ائمہ اربعہ کی رائے سے الگ فتویٰ دیا۔ ایسے فتاویٰ کو تفرداتِ ابن تیمیہ کہا جاتا ہے۔
اولیات یا تفردات کایہ لفظ غلط فہمی پیدا کرنے والا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ ایسے امور کو اجتہاد کہا جائے۔ اولیات اور تفردات جیسے الفاظ بولنے سے کوئی مسلمہ اصول نہیں ملتا، جس کی روشنی میں ان کے اوپر کوئی شرعی حکم لگایا جاسکے۔ اس کے برعکس، اگر ان امور کے لیے اجتہادِ عمر اور اجتہادِ ابن تیمیہ کی اصطلاح استعمال کی جائے تو ان کے بارے میں شرعی حکم لگانے کے لیے ہمیں ایک اصول مل جائے گا، وہ اجتہاد کا اصول ہے۔ حتیٰ کہ اگر مجتہد نے اجتہاد میں خطا کی ہو تب بھی ہمارے پاس ایک شرعی اصول ہوتا ہے جس کی روشنی میں ہم ان رایوں کو جان سکیں۔ اگر کوئی اجتہاد قرآن و سنت کے مطابق ہے تو اس کو صحیح اجتہاد کہا جائے گا، اور اگر وہ قرآن و سنت کے مطابق نہ ہو تو اس کو اجتہادی خطا کہا جائے گا، اور جیسا کہ معلوم ہے شریعت میں اجتہادی خطا پر بھی ایک ثواب ملتاہے۔
اصل یہ ہے کہ اسلام کے بعد کے زمانے میں اجتہاد کا جو تصور قائم ہوا، وہ عملاً محدود فقہی اجتہاد کے ہم معنی تھا۔ ائمہ اربعہ جن کو مجتہد کہا جاتا ہے، وہ سب کے سب اسی معنی میں مجتہد تھے۔ ان میں سے ہر ایک جزئی مسئلہ میں مجتہد تھا، نہ کہ کلی مسئلہ میں۔
اسلام میں اجتہاد کی ایک ہی قسم ہے— مطلق اجتہاد ۔ مقید اجتہاد کی اصطلاحیں لوگوں نے بطور خود وضع کر لیں۔ ورنہ اجتہاد ایک ہے۔ البتہ یہ فرق ہے کہ کبھی جزئی مسئلہ میں اجتہاد کیا جاتا ہے، اور کبھی کلی مسئلہ میں ۔ اجتہاد کوئی بدعت نہیں۔ اجتہاد یہ ہے کہ نئی صورت حال میں از سر نوحکم شرعی کو معلوم کرنا۔ اجتہاد کو اگر اولیات یا تفردات کا نام دیا جائے تو وہ عملاً ایک شخصی چیز بن جائے گا، نہ کہ شرعی حدود میں اجتہادی رائے قائم کرنے کی ایک مثال ۔