اسپرٹ آف انکوائری
اسپرٹ آف انکوائری کیا ہے۔ یہ تجسس کا مزاج ہے:
Spirit of enquiry is a persistent sense of curiosity.
اسپرٹ آف انکوائری کو میں نے ایک تجربے سے سمجھا ہے۔ یہ واقعہ میری طالب علمی کے دور کا ہے۔ میری تعلیم جامعۃ الاصلاح (سرائے میر، اعظم گڑھ) میں ہوئی۔ میرے تفسیر کے استاد کا نام مولانا امین احسن اصلاحی تھا۔اسپرٹ آف انکوائری کا پہلا سبق مجھے میرے استادمولانا امین احسن اصلاحی سے ملا۔ ایک روز قرآن کی کلاس میں یہ آیت سامنے آئی:أَفَلَا یَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ کَیْفَ خُلِقَت (88:17)۔ یعنی کیا وہ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے پیدا کیا گیا۔
استاذ نے اس موقع پر طلبہ سے پوچھا کہ اونٹ کا سُم (hoof) پھٹا ہوتا ہے یا جڑا ہوتا ہے۔ یعنی بیل کی مانند پھٹا ہوتا ہے یا گھوڑے کی مانندجڑاہوتا ہے۔ اس وقت ہماری جماعت میں تقریباً 20 طالب علم تھے۔ مگر کوئی بھی شخص یقین کے ساتھ اس کا جواب نہ دے سکا۔ ہر ایک اٹکل بچو سے کبھی ایک جواب دیتا، اور کبھی دوسرا جواب۔
اس موقع پر استاد نے بتایا کہ تمھارے جوابات سے اندازہ ہو تاہے کہ تم لوگ اونٹ کے سم کی نوعیت نہیں جانتے۔ پھر انھوں نے مشہور تابعی عامربن شراحیل الشعبی (وفات 103 ھ) کا مقولہ سنایا:لَا أَدْرِی نِصْفُ الْعِلْمِ(سنن الدارمی، اثر نمبر 186)۔ یعنی’’میں نہیں جانتا ‘‘کہنا ،آدھا علم ہے۔ اس کی تشریح انھوں نے کی کہ اگر تم لوگ یہ جانتے کہ تم اونٹ کے سم کے بارے میں بے خبر ہو تو گویا کہ اس معاملہ میں تمھارے پاس آدھا علم ہوتا۔ کیوں کہ اپنی لاعلمی کو جاننے کے بعد تمھارے اندر یہ شوق پیدا ہوتا کہ تم اپنے علم کو مکمل کرنے کے لیے یہ معلوم کرو کہ اونٹ کے سم کیسے ہوتے ہیں۔ اگر لاادری (میں نہیں جانتا) کا شعور تمھارے اندر بیدار ہوتا تو اونٹ پر نظر پڑتے ہی تم اس کے سُم کو غور سے دیکھتے، اور پھر تم اس کے نہ جاننے کو جاننا بنا لیتے۔
مدرسہ کا یہ واقعہ میرے لیے اتنا موثر ثابت ہوا کہ یہ میرا عمومی مزاج بن گیا کہ میں ہر معاملے میں اپنی ناواقفیت کو جانوں، تاکہ میں اس کو واقفیت بنا سکوں۔ علمی تلاش کا یہ جذبہ مجھے ابتداء ً مدرسہ سے ملا تھا۔ بعد کو میں نے اس موضوع پر مغربی مصنفین کی کچھ کتابیں پڑھیں، مثلاً اسپرٹ آف انکوائری (spirit of enquiry)۔ ان سے معلوم ہوا کہ تجسس کا یہی جذبہ تمام علمی ترقیوں کی اصل بنیاد ہے۔ اس کی ایک مشہور مثال یہ ہے کہ ہزاروں لوگوں نے سیب کو درخت سے گرتے دیکھا تھا۔ مگر اس معاملہ میں وہ اپنے ’’لا ادری‘‘ کو نہیں جانتے تھے، اس لیے وہ حقیقت سے بے خبر رہے۔ نیوٹن پہلا شخص ہے، جس نے اس معاملہ میں اپنے ’’لاادری‘‘ کو جانا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ’’ادری‘‘ کے درجہ تک پہنچ گیا۔ یعنی کششِ ثقل (gravitation) کو دریافت کیا۔
اس کے برعکس، ہمارے لوگوں کا معاملہ کیا ہے۔ وہ دور جدید کو نہیں جانتے تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے یہ اعلان کردیاکہ دور ِجدید اسلام کا مخالف ہے۔جب کہ انھیں کہنا یہ چاہیے تھاکہ لاادری ما ھوالعصر الجدید (میں نہیں جانتا کہ دورجدید کیا ہے )۔ اس کے بعد وہ اس قابل ہوتے کہ دور جدید کو جانیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔
جب انھوں نے دور جدید کو جانے بغیر یہ اقدام کیا کہ انھوں نے، اس ادری (میں جانتا ہوں) کلچر کی بنا پر، ہر چیز کو مخالفِ اسلام قرار دے دیا۔ یہی وہ چیز ہے جس کی بنا پر وہ دور جدید میں دوسری قوموں سے پیچھے رہ گئے۔اس کے برعکس،راقم الحروف کا معاملہ یہ ہے کہ میں ہر چیز کو سب سے پہلے لاادری (میں نہیں جانتا ہوں)کے خانے میں ڈالتا ہوں۔ اس کے بعد موضوعی اعتبار سےیہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کہا تھا: جب معلوم نہ ہو تو معلوم کرنا چاہیے ۔ یقیناً نہ جاننے کاعلاج دریافت کرنا ہے(أَلَا سَأَلُوا إِذْ لَمْ یَعْلَمُوا فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِیِّ السُّؤَالُ)سنن ا بوداؤد، حدیث نمبر336۔ اسپرٹ آف انکوائری بہت زیادہ اہم ہے۔ گویا یہ اپنے نہ جاننے کو جاننا بنانے کا آرٹ ہے۔ یہ تمام انسانی ترقیوں کے لیے قوتِ محرکہ ہے۔