شکایت نہیں

امریکی مصنف مائکل ہارٹ نے اپنی کتاب دی ہنڈریڈ (The 100)میں تاریخ کے 100کامیاب ترین انسانوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کامیاب انسانوں میں اس نے پیغمبر اسلام کو پہلا مقام دیا ہے۔ اس کا ریزن کیا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کون سا طریقہ اختیار کیا، جس کی وجہ سے ان کو اتنی عظیم کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ کوئی پراسرار واقعہ نہیں۔ قرآن میں کئی مقام پر آیا ہے کہ خدا نے آپ کو کتاب اور حکمت کے ساتھ بھیجا ہے۔ کتاب سے مراد ہے اللہ کا کلام یعنی قرآن۔اور حکمت کا مطلب ہے پریکٹکل وزڈم۔دوسرے الفاظ میں، پیغمبر اسلام نے انسانوں کو دو چیزیں دی ہیں نظریاتی طور پر اللہ کی کتاب، اور عملی سطح پر حکمت ( practical wisdom) ۔ رسول اللہ کی کامیابی کا جو خاص راز ہے، وہ ہے پریکٹکل وزڈم ۔پریکٹکل وزڈم کا مطلب عملی پہلوؤں پر غور و فکر کرنا، اور عملی تقاضے جو ہیں، اس کو کنسیڈر (consider)کرکے آگے بڑھنا۔

مثلاً یہ کہ جب پیغمبر اسلام نے 610 عیسوی میں اپنا توحید کا مشن شروع کیا تو بڑے پیمانے پر آپ کی مخالفت کی گئی۔ آپ کو مختلف قسم کے ناموں سے پکارا گیا— مجنون (دیوانہ)،مذمم ، وغیرہ۔ مگر آپ نے ان باتوں کا کوئی منفی اثر نہیں لیا۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں سے واضح طورپر یہ معلوم ہوتاہے کہ رسول اور اصحابِ رسول نے کبھی اُس کے خلاف احتجاج اور شکایت کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔

اس کے برعکس، آپ نے جو کیا، وہ یہ تھا کہ آپ نے مسائل کو اگنور کیا، اور مواقع پر فوکس کیا۔ مسائل کیا تھے، مثلاً مخالفین کی جانب سے آپ کو برے ناموں سے پکارا گیا۔ مگر آپ نے اس کا کوئی منفی نوٹس نہیں لیا۔پیغمبر اسلام کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ہمیشہ منفی واقعات کے اندر مثبت پہلو تلاش کرتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک روایت حدیث کی کتابوں میں اس طرح آئی ہے، پیغمبر اسلام نے کہا :أَلاَ تَعْجَبُونَ کَیْفَ یَصْرِفُ اللَّہُ عَنِّی شَتْمَ قُرَیْشٍ وَلَعْنَہُمْ، یَشْتِمُونَ مُذَمَّمًا، وَیَلْعَنُونَ مُذَمَّمًا وَأَنَا مُحَمَّدٌ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3533)۔ یعنی کیا تم کو یہ بات عجیب نہیں معلوم ہوتی کہ اللہ مجھ سے قریش کے سب وشتم اور لعنت کو کس طرح دور کررہا ہے ۔ مجھے وہ مذمم کہہ کر شتم کرتے ہیں، مذمم کہہ کر وہ مجھ پر لعنت بھیجتے ہیں۔ حالانکہ میں تو محمد ہوں۔

اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر اسلام کا طریقہ سب و شتم پر مشتعل ہونا نہیں ہے، اور نہ فریقِ مخالف کے خلاف شکایت اور احتجاج کرنا ہے۔ بلکہ اس سے اعراض کرنا ہے۔ یہ بلند اخلاقی کا معاملہ ہے، نہ کہ قانونی سزا کا معاملہ۔یہ اعلیٰ سوچ کی ایک انوکھی مثال ہے۔چنانچہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ ممکن ہوا کہ آپ مسائل کے درمیان مواقع کو دیکھ سکیں، اور ان کو اویل کریں۔ اس کو کہتے ہیں— حالات سے اوپر اٹھ کر سوچنا۔

وہ مواقع کیا تھے۔ مثلاً یہ کہ قدیم کعبہ جو توحید کا سینٹر ہونے کے باوجود بتوں کا مرکز بن گیا تھا۔ یہ بات توحید کے پیغمبر کے لیے ناقابلِ برداشت تھی کہ وہ ایسا ہوتے ہوئے دیکھے، اور اس کے خلاف احتجاج نہ کرے۔ مگر پیغمبر اسلام کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ آپ نے ان بتوں کو کعبہ سے ہٹانے کی کوئی بات نہیں کی۔ اس کے برعکس، آپ نے حالات سے اوپر اٹھ کر عمل کیا۔ یعنی آپ نے گہرے مطالعے کے بعد سمجھا کہ جس کعبہ میں بت رکھے ہوئے ہیں، اسی بت کی وجہ سے پورے عرب سے روزانہ بڑی تعداد میں زائرین آتے ہیں، جو پوٹنشل آڈینس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر بتوں کے خلاف آواز اٹھائی جائے، تو بت نہیں ہٹے گا، مگر نقصان یہ ہوگا کہ زائرین ، یعنی پوٹنشل آڈینس کا آنا بھی بند ہوجائے گا۔ اس کے برخلاف، جب بتوں کے خلاف ہنگامہ نہ کیا جائے تو زائرین ، یعنی آڈینس آئیں گے، جن کو آسانی سے اپنا پیغام پہنچایا جاسکتا ہے۔ پیغمبر اسلام نے یہی طریقہ اختیار کیا، اور سارا عرب آپ کے لیے توحید کا آڈینس بن گیا۔اس طرح آپ نے بتوں کے اجتماع کو مینج کرکے اس کو توحید کا آڈینس بنا دیا۔

اسی طرح یہ کہ پیغمبر اسلام نے اپنا مشن قدیم مکہ میں شروع کیا۔ وہاں آپ کی شدید مخالفت ہوئی۔ یہاں تک کہ انھوں نے آپ کو الٹی میٹم دے دیا کہ آپ مکہ کو چھوڑ دیں، ورنہ ہم آپ کو قتل کردیں گے۔ ان حالات میں آپ نے مکہ کو چھوڑدیا، اور خاموشی کے ساتھ مدینہ آکر وہاں رہائش اختیارکرلی۔عام رواج کے مطابق کوئی شخص آسانی سے اپنا وطن نہیں چھوڑتا، بلکہ اس فیصلہ کو بدلوانے کی ہر کوشش شروع کردیتا ہے۔ مگر پیغمبر اسلام نےقدیم مکہ کے سرداروں کے اس فیصلہ کو قبول کرلیا، اور خاموشی سے مدینہ آکر آباد ہوگئے۔اپنےنتیجے کے اعتبار سے دیکھیے تو یہ ایک نہایت حکیمانہ عمل تھا۔

ایسے حالات میں عام طور پر لوگ جوابی ذہن کے تحت سوچتے ہیں، اور ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ لیکن پیغمبر اسلام نے مسائل پر احتجاج کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائے ملے ہوئے مواقع کو اویل کیا۔تاریخ بتاتی ہے کہ آپ کا منصوبہ مکمل طور پر کامیاب رہا۔ آپ کا یہ طریقہ اتنا کامیاب ہوا کہ صرف دس سال کے اندر پہلے مکہ اور پھر سارا عرب آپ کے دائرے میں آگیا۔

یہ اسوۂ رسول ہے۔ اس حقیقت کو سامنے رکھ کر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ تمام دنیا کے مسلمان پیغمبر اسلام کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائےنفرت اور شکایت اور احتجاج کی نفسیات میں جیتے ہیں۔ یہ نفسیات اتنا زیادہ عام ہے کہ مسلمانو ںکے ہر طبقہ، تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ دونوں کے درمیان یکساں طور پر پائی جاتی ہے۔ مسلمانوںکا یہ منفی ذہن (negative mind) بظاہر دوسروں کے خلاف ہے۔ مگر عملی نتیجہ کے اعتبار سے خود اپنے خلاف ہے۔ ایسا انسان نفرت اور جھنجھلاہٹ میں جیے گا۔اس قسم کا مزاج انسان کے اندر تخلیقی صلاحیت میں رکاوٹ ہے۔میں نے 15 ستمبر 1997 میں ٹائمس آف انڈیا میں ایک مضمون لکھا تھا۔ جس کا موضوع تھا:

Not By Grievances Alone: Indian Muslims’ Failure

تقریباً سوسال سے مسلمانوں کی جو سیاست رہی ہے، اس پر یہ ایک جامع تبصرہ ہے۔ اس مضمون میں بتایا گیا تھا کہ رسول اللہ نے امت کو پریکٹکل وزڈم کا نمونہ دکھایا تھا۔ پریکٹکل وزڈم کا مطلب ہے، حالات کے خلاف احتجاج مت کرو، بلکہ حالات کو مینج کرکے موافق (favourable) بناؤ۔ لیکن امت اس نمونے پر چلی نہیں۔ اس لیے وہ مسائل میں پھنسی ہوئی ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom