دین کی عصری تفہیم

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے :وَعَلَى الْعَاقِلِ أَنْ یَکُونَ بَصِیرًا بِزَمَانِہِ(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر361)۔ یعنی دانش مند کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے سے باخبر ہو۔ بصیرتِ زمانی کی یہ صفت زندگی کے عام معاملات کے لیے بھی ہے، اسی کے ساتھ دین کو زمانے کی نسبت سے سمجھنے کے لیے بھی۔

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات مومنِ مجتہد کے لیے کہی گئی ہے۔ اجتہاد اہل اسلام کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ اجتہاد کی خاص شرط کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ مومن مجتہد قرآن و سنت کی گہری واقفیت کے ساتھ اپنے زمانے کے حالات سے بھی بخوبی طور پر واقف ہو۔ تاکہ وہ زمانے کے تقاضے کے مطابق اسلامی تعلیم کی نئی تشریح کرسکے۔ ایسی تشریح جس میں اسلام کی تعلیمات کی بھرپور طور پر تعمیل موجود ہو، اور اسی کے ساتھ اس میں زمانے کے حالات کےمطابق اہل اسلام کو درست رہنمائی حاصل ہوتی ہو۔

اجتہاد دوسرے الفاظ میں اسلام کی دانش مندانہ تعبیر ہے۔ جس آدمی کا حال یہ ہو کہ وہ قرآن و سنت سے واقف ہو لیکن اس کے اندر دانش مندی کی صفت نہ ہو تو وہ دین کو درست طور پر نہیں سمجھے گا۔ وہ درست طو رپر لوگوں کو دینی رہنمائی نہ دےسکے گا۔وہ دین کو تطبیقی انداز (applied way) میں پیش نہ کرسکے گا۔

دین کی عصری تفہیم کا مطلب صرف یہ ہے کہ ابدی دین کو وقت کے اسلوب (idiom of the time) میں بیان کرنا۔ دینی متن کا ترجمہ اگر صرف ترجمہ ہے تو اس کی عصری تفہیم کا مطلب ترجمہ پلس (translation plus) ہے۔ یعنی سطور (lines) کے ساتھ بین السطور (between the lines) کا اضافہ۔ ایک اگر اکیڈمک ڈکشنری (academic dictionary)کی زبان میں ہے تو دوسرا عصری ڈکشنری کی زبان میں ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom