توبہ کی اہمیت
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَہَبَ اللہُ بِکُمْ، وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ یُذْنِبُونَ، فَیَسْتَغْفِرُونَ اللہَ فَیَغْفِرُ لَہُمْ(صحیح مسلم، حدیث نمبر2749)۔یعنی اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تمہیں لےجائے گااور ایسی قوم لائے گا جو گناہ کرے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو اللہ انہیں معاف فرما دے۔
موجودہ دنیا اس ڈھنگ پر بنی ہے کہ یہاں آدمی سے ضرور کوئی نہ کوئی غلطی صادر ہوجاتی ہے۔ اس غلطی کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ فطری نظام کے تحت آدمی کے اندر غلطی کے بعد شرمندگی (repentance) کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس سے آدمی کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی غلطی کی اصلاح کرے، اور اس معاملے میں اللہ سے مدد کا طالب ہو۔
اس طرح غلطی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر ذاتی اصلاح (self correction) کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ آدمی کے اندر نئی فکر بیدار ہوتی ہے۔ اس کی سوچ مزید شدت کے ساتھ متحرک ہوجاتی ہے۔ اس طر ح آدمی کے اندر جو عمل (process)جاری ہوتا ہے، وہ اس کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ یہ عمل اگر طاقت کے ساتھ باربار جاری رہے تو وہ آدمی کے لیے اعلیٰ ترقی کا زینہ بن جاتا ہے۔
معتدل حالات میں انسان کے اندر کوئی بڑی اصلاح نہیں ہوتی۔ بڑی اصلاح، یا بڑی سوچ کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کو سخت قسم کا شاک (shock)لگے۔اس کے اندر برین اسٹارمنگ (brainstorming)آئے۔ آدمی کے اندر طاقت ور انداز میں محاسبہ کا مزاج پیدا ہو، اور یہی وہ چیزیں ہیں، جو غلطی کے بعد آدمی کے اندر جاگ اٹھتی ہیں۔ اس طرح غلطی انسان کے اندر اصلاح کا ذریعہ بن جاتی ہے۔