ہوم اسکول
حیدرآباد کی ایک فیملی کا واقعہ ہے۔وہ روایتی معنوں میں ایک مذہبی فیملی تھی۔ مگر ان کے گھر میں مذہب کا چرچا نہیں ہوا کرتا تھا، بلکہ اکثر اوقات ان کے گھر میں شکایت کی باتیں ہوا کرتی تھیں، جیسا کہ بیشتر گھروں میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ ان کو ایک سینئر عالم دین نے مشورہ دیا کہ آپ شکایتی ذہن فوراًختم کردیجیے، اور اپنے گھر کو ہوم اسکول بنا لیجیے۔ جہاں پر آپ اپنی بیوی بچوں سمیت انگریزی زبان سیکھیے، اور مثبت طرز فکر کی کتابیں پڑھیے۔
انھوں نے ایسا ہی کیا۔ کچھ دنوں کے بعد ٹیلیفون پر انھوں نے اپنے حالات بتائے۔ انھوں نے کہا کہ اب یہ ہوگیا ہے کہ ہمارے گھر میں ہر ایک کی زندگی بامعنی (meaningful) زندگی ہوگئی ہے۔ گھر کا ہرفرد (والدین اور بچے) اپنا اپنا رول سمجھنے لگا ہے۔ اس سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ اس تعلق سے ایک تجربہ یہ ہوا کہ میں نے ایک اردو کتاب کو انگریزی میں سمجھنا چاہا تو اپنے بچوں سے اس کا ترجمہ کروایا۔بچوں نے پوری لگن کے ساتھ اس کا ترجمہ کیا۔ اس طرح مجھے انگریزی میں ترجمہ مل گیا، اور بچوں نے خدا کا منصوبۂ تخلیق سمجھ لیا۔ میری بیوی کہتی ہے کہ میری نظر میں کہیں ایسا نہیں ہے کہ گھر کے بچے بھی اپنے رول کو سمجھیں۔ والدین کو ہمیشہ یہ شکایت رہتی ہے کہ بچے ان کی بات نہیں مانتے ۔ مگر اس نئی شروعات سے بچوں میں ایک نیا رجحان دیکھنے کو ملا ہے، اپنے رول کو سمجھنے کا رجحان۔
اب ان کے گھر میں منفی باتوں اور شکایتی باتوں کا ماحول ختم ہو گیا ہے۔ اس کے بجائے مثبت موضوعات اور خدا کی معرفت کا چرچا ہونے لگا ہے۔ اس طرح ان کے گھر کا ماحول بدل گیا۔ بچوں نے نئے ماحول میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرلیا۔ اس طرح ان لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہوا، اور نفسیاتی طور پر تعمیری سوچ ان کے اندر آئی۔ یہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے قرآن کی اِس آیت کی توسیعی تطبیق ہے:وَاجْعَلُوا بُیُوتَکُمْ قِبْلَةً وَأَقِیمُوا الصَّلَاةَ(10:87)۔ یعنی اور اپنے ان گھروں کو قبلہ بناؤ اور نماز قائم کرو۔