اعلیٰ حمد
قرآن میں فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم کی دعا کا ذکر ہوا ہے ۔دعا کے الفاظ یہ ہیں : رَبِّ ابْنِ لِی عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ (66:11)۔ یعنی اے میرے رب، میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنادے ۔ یہ دعا اللہ کی گہری دریافت سے نکلی ہوئی دعا ہے۔ جب آسیہ کو دنیا کی زندگی میں اعلیٰ حمد کا موقع نہیں مل سکا تو اس نے یہ دعا کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں معرفت کا جو اعلی کلچر رائج ہونا چاہیے تھا، وہ رائج نہ ہوسکا۔اب سوال یہ ہے کہ یہ اعلیٰ عارفانہ تہذیب کب قائم ہوگی۔ قرآن کے مطابق، یہ اعلیٰ عارفانہ تہذیب آخرت میں جنت کی دنیا میں قائم ہوگی۔یہ ان انسانوں کو ملے گی، جو دنیا کے اندر معرفتِ خداوندی کی کوشش کرتے رہے۔
اعلیٰ معرفت کیا ہے، اس کا ذکر قرآن میں دو مقامات پر آیا ہے۔سورہ الکہف میں یہ الفاظ آئے ہیں: کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی نشانیوں کو لکھنے کے لیے روشنائی ہوجائے تو سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے ساتھ اسی کے مانند اور سمندر ملا دیں۔ (18:109)۔سورہ لقمان میں اس طرح آیا ہے: اور اگر زمین میں جو درخت ہیں وہ قلم بن جائیں اور سمندر، سات مزید سمندروں کے ساتھ روشنائی بن جائیں، تب بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں۔ بیشک اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے(31:27)۔
ان دونوں آیات میں سمندر کے ختم ہونے کا ذکر موجودہ دنیا کے ریفرینس میں ہے۔ مگر آخرت کی جنت میں یہ محدودیت نہیں ہوگی۔ وہاں پر انسانوں کو لامحدود طور پر حمد اور معرفت کا موقع ملے گا۔ اس حقیقت کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہےکہ جنت میں ان کا قول ہوگا : اے اللہ تو پاک ہے۔ اوروہ ملتے وقت ایک دوسرے کو سلامتی (کی دعا) دیں گے۔ اور ان کی آخری بات یہ ہوگی کہ ساری تعریف اللہ کے لیے ہے جو رب ہے سارے جہان کا(10:10)۔ یعنی اہل جنت کو ہرلمحہ لامحدود طور پر حمد کلچر میں جینے کا موقع ملے گا۔