ایک سینئر سیٹیزن کی زبانی

میری پیدائش یکم جنوری 1925ء کو یوپی میں ہوئی۔ میں برٹش انڈیا میں پیدا ہوا، اور اب اس کے ایک سینئر سیٹیزن کی حیثیت سے آزاد انڈیا میں پہنچ گیا ہوں۔ میری پیدائش ایک ایسے گھرانے میں ہوئی، جو فریڈم فائٹر کی حیثیت رکھتا تھا۔ میرے بڑے بھائی اقبال احمدخاں سہیل (ایم اے، ایل ایل بی)ایڈوکیٹ (1884-1955) ایک شاعر تھے۔ انھوں نے اپنی ایک نظم میں کہا تھا:

غلط ہے یہ کہ فقط ہندوؤں کا لیڈر تھا

کہ تھا تمام جہاں بھر کا رہنما گاندھی

اقبال احمد خاں سہیل نے 1936 کے یوپی کے الیکشن میں حصہ لیا تھا، اور الیکشن جیت کر یوپی اسمبلی کے ممبر بنے تھے۔ اس کے بعد جب میں بڑا ہوا، تو مجھے سوامی وویکانندا (1863-1902) کی کتاب لیٹرس آف وویکانندا پڑھنے کو ملی۔ اس کتاب کے لیٹر نمبر 271 میں سوامی وویکانند نے اپنے ایک فرینڈ کو ایک خط مورخہ 10 جون 1898 ءمیں لکھا تھا۔ اس خط میں سوامی وویکانند نے آزاد انڈیا کے بارے میں اپنے ویزن کو ان الفاظ میں بیان کیا تھا :

For our own motherland a junction of the two great systems, Hinduism and Islam—Vedanta brain and Islam body—is the only hope. I see in my mind’s eye the future perfect India rising out of this chaos and strife, glorious and invincible, with Vedanta brain and Islam body. (Letters of Swami Vivekananda, p. 427)

انھیں سہانی یادوں کے ساتھ میرے دن گزرتے رہے۔ میں اپنے دائرے میں آزادی کی سرگرمیوں میں شریک رہا۔ مثلاً میں نے آزادی سے پہلے مئو (یوپی)جاکر جواہر لال نہرو (1889-1964)کی تقریر سنی۔ مجھے یاد ہے کہ لوگ ٹرینوں اور بسوں کی چھت پر بیٹھ کر مئو پہنچے تھے۔ اسی طرح میں نے پھولپور (اعظم گڑھ)کے ایک جلسہ میں شریک ہوکر سبھاش چندر بوس (1897-1945) کی تقریر سنی۔جیسا کہ معلوم ہے کہ سبھاش چندر بوس نے آزاد ہند فوج 1942 میں بنائی تھی۔ ان کا نعرہ یہ تھا:

Give me blood, I will give you freedom

اسی طرح میں نے ایک سوشلسٹ اجتماع (gathering) میں شریک ہوکر جے پرکاش نارائن (1902-1979) کی تقریر سنی۔یہ جلسہ اعظم گڑھ میں ہوا تھا۔ جیسا کہ معلوم ہے جے پرکاش نارائن بعد کو لوک نائک کے خطاب سے مشہور ہوئے۔ اس طرح میری نوجوانی کے دن گزر رہے تھے۔ یہاں تک کہ 15اگست 1947ء کا دن آگیا۔ 15اگست 1947ء کی رات کو میں نے وہ تاریخی تقریر تو نہیں سنی، جس میں اس وقت کے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن (1900-1979) نے رات کو 12 بج کر ایک منٹ پرآل انڈیا ریڈیو سے اعلان کیا تھا:

Today India is free

میں وائسرائے کی تقریر کو ریڈیو پر تو نہیں سن سکا، لیکن بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح اگلے دن صبح کو اخبار میں پڑھا۔ 15اگست 1947ء کو میں اعظم گڑھ میں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ رات کے وقت جب میں اپنی قیام گاہ سے باہر نکلا، اور شہر کی سڑکوں پر پہنچا تو میرے چاروں طرف خوشی کے دیے جل رہے تھے۔ پورا شہر روشنی میں ڈوبا ہوا تھا۔

اب وہ روشنی بجھ چکی ہے، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب لوگ مل کرایک نئے دور کے آغاز کا دیا جلائیں— وہ ہے انڈیا کی نئی تعمیر کا دور۔ وہ دور جس کا خواب سوامی وویکانندا نے دیکھا تھا۔ وہ دور جس کی یاد میں مہاتما گاندھی نے اپنی جان دے دی۔ وہ دور جس کا آخری صفحہ لکھنے کے لیے شاید انڈیا کا مؤرخ انتظار کر رہا ہے۔

میں اب 90 پلس ہوچکا ہوں۔ لیکن میری امیدیں ابھی تک باقی ہیں۔ میرا معمول ہے کہ میں روزانہ صبح کو اپنے کمرے سے نکل کر باہر بیٹھ جاتا ہوں، اور صبح کے سورج کے نکلنے کا انتظار کرتا رہتا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ 15اگست پر ہونے والے ایک پروگرام میں مَیں نے کسی شاعر کی زبان سے سنا تھا:

برج مِحن سے نکلا سورج   روشن اپنا مستقبل ہے

میں روزانہ طلوع سورج (sunrise) کا منظر اس امید سے دیکھتا ہوں کہ شاید آج کی صبح وہی صبح ہو، جس کے اشتیاق میں ایک فریڈم فائٹر نے ایک کتاب لکھی تھی، جس کا ٹائٹل تھا: روشن مستقبل۔میں ہر دن نکلنے والے سورج کا استقبال ان الفاظ میں کرتا ہوں— وہ صبح کبھی تو آئے گی، وہ صبح کبھی تو آئے گی۔

انڈیا نے پیس فل اسٹرگل (peaceful struggle) کے ذریعے اپنی تاریخی آزادی حاصل کی تھی۔ اب انڈیا کی تعمیر نو کا کام بھی صرف پیس فل ا سٹرگل کے ذریعے انجام دیا جاسکتا ہے۔ انڈیا نے پیس فل اسٹرگل کے ذریعے آزادی حاصل کرکے ایک تاریخ بنائی تھی، اب دوبارہ وقت آگیا ہے کہ انڈیا کی تعمیر نو کا کام پیس فل اسٹرگل کے ذریعے انجام دیا جائے۔انڈیا کی طاقت پہلے بھی امن تھی، آج بھی امن(peace)ہے، اور آئندہ بھی امن ہی اس کی طاقت بنی رہے گی۔

15 اگست 2020 کو انڈیا نے اپنا چوہترواں (74th)یوم آزادی منایا۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ ہم آزاد انڈیا کی حیثیت سے اپنا رخ متعین کریں۔ یوم آزادی ہمارے لیے ٹرینڈ سیٹر(trend-setter) ہونا چاہیے۔ موجودہ سال، یعنی 2020 ء کو ہمیں ٹرینڈ سیٹر سال کے طور پر منانا چاہیے۔ سوچ سمجھ کر ہمیں آخری طور پر یہ طے کرنا چاہیے کہ آزاد نیشن کی حیثیت سے ہمارا نشانہ کیا ہے۔

سوامی وویکانندا نے یہ کہا تھا کہ انڈیا کے بارے میں ان کا خواب یہ ہے کہ آزادی کے بعد انڈیا اسپریچول سوپر پاور بن کر ابھرے۔ انڈیا پوٹنشل طور پر بلاشبہ اسپریچول سوپر پاور ہے۔ اس پوٹنشل کو ایکچول بنانے کے لیے صرف ایک چیز کی ضرورت ہے، اور وہ ہے جمہوری نظام کے تحت متحد ہوکر کوشش کرنا۔

میں 90 پلس ہوں، اس لحاظ سے مجھے زندگی کا لمبا تجربہ ہوا ہے۔ میں اپنے تجربے کی روشنی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انڈیا کے ڈیولپمنٹ کے لیے صرف ایک ہی ماڈل ہے ، جو ورکیبل ماڈل ہے۔ وہ وہی فطری ماڈل ہے، جس کو امریکن ماڈل کہا جاسکتاہے۔ امریکن ماڈل فری کمپٹیشن پر بیس (base) کرتا ہے، یعنی ایسا ماحول پیدا کرنا، جس میں میرٹ کی بنیاد پر کسی کو ترقی حاصل ہو، نہ کہ فیور (favour) کی بنیاد پر۔ ترقی کے لیے اصل چیز کامپیٹیشن ہے، نہ کہ فیور۔ امریکا میں ہر میدان میں یہ اصول ہے کہ کمپیٹ یا پیرش (compete or perish)، یعنی مقابلہ کرو، یا ختم ہوجاؤ۔ عام زبان میں اس کو کرو یا مرو(do or die) کہاجاتا ہے۔

فطرت کے قانون کے مطابق، اس دنیا میں کوئی گروہ فیور (favour) کے ذریعے ترقی نہیں کرسکتا۔ وہ صرف مقابلہ (competition) میں اپنے آپ کو اہل ثابت کرکے کامیاب ہوسکتا ہے۔یہ کمپٹیشن ہے، جوانسان کو مین (man)سے اٹھا کر سوپر مین (super-man) بناتی ہے۔ کیوں کہ خالق نے اس دنیا کوچیلنج - رسپانس (challenge-response) کے اصول پر بنایا ہے۔ فرد کی ترقی یا سماج کی ترقی کا راز یہ ہے کہ فطرت کو آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع دیا جائے۔اس کے سوا ہر دوسرا اصول انسان کا خود ساختہ اصول ہوگا، جو کبھی عمل میں آنے والا نہیں۔

یہی ماڈل نیچرل ماڈل ہے۔ کمپٹیشن کا ماڈل ماٹیویٹنگ ماڈل (motivating model) ہے۔ اس کے برعکس، نہرو نے رشین ماڈل کو اختیار کیا، جس کو وہ سوشلسٹ ماڈل کا نام دیتے تھے۔ مگر عملاً یہ ماڈل ڈی ماٹیویٹنگ ماڈل (demotivating model)ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس ماڈل کو اختیار کریں، جو ماٹیویشن پر مبنی ہے، اوراس ماڈل کو مکمل طور پر چھوڑ دیں، جو عملا ڈی ماٹیویشن کا ماڈل بن جاتا ہے۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ ہم انڈیا کے ڈیولپمنٹ کی ری پلاننگ کریں۔

انڈیا میں امریکا کے سابق سفیر گالبریتھ ( John Kenneth Galbraith) نے ایک مرتبہ اپنے ایک بیان میں کہا تھا— انڈیا ایک فنکشننگ انارکی ہے (India is a functioning anarchy)۔ میں اس بیان کوکریٹیسزم کے طور پر نہیں لیتا، بلکہ چیلنج کے طور پر لیتا ہوں، اور یہ دعا کرتا ہوں کہ انڈیا ایک آئڈیل ڈیموکریسی بنے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom