افضل ایمان
عبد الرحمن ابن سابط (وفات 118ھ) تابعی ہیں۔ ان کا ایک قول ان الفاظ میں آیا ہے:عَنِ ابْنِ سَابِطٍ، رِوَایَةً قَالَ:أَفْضَلُکُمْ إِیمَانًا أَفْضَلُکُمْ مَعْرِفَةً(الایمان للعدنی، اثر نمبر70)۔ یعنی ابن سابط کہتے ہیں کہ تم میں سے جو ایمان میں افضل ہے، وہ تم میں سے معرفت میں افضل ہے۔ خدا کی معرفت اہل ایمان کے لیے سب سے اہم ہے۔ کیوں کہ معرفت سے انسان کی خدا کے ساتھ انسیت (nearness) بڑھتی ہے، اور خدا اور بندے کے درمیان اجنبیت کا خاتمہ ہوتا ہے۔خدا سے اجنبیت خدا سے دوری کا سبب ہوتی ہے، اور خدا کی معرفت خدا سے قربت کا سبب ہے۔
معرفت کسی انسان کے اندر کیسے آتی ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کو براہ راست اس دنیا میں دیکھنا ممکن نہیں ۔ خدا کو بالواسطہ طور پر اس کی تخلیق کے ذریعے پہچانا جاسکتا ہے۔ معرفت کائناتی نشانیوں میں تدبر و تفکر کے ذریعے اندرونی پکار کا جواب پانے کا نام ہے۔ یعنی یہ کہ آپ کے ذہن میں وہ سوال پیدا ہو جو ہر انسان کے ذہن میں فطری طور پر پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً میں کون ہوں، میں اس دنیا میں کیوں آیا ہوں۔ مجھے اس دنیا میں کون لایا ہے۔ اس دنیا کو کون چلا رہا ہے۔ کون مجھے کسٹم میڈ طریقے سے ہر چیز مہیا کررہا ہے،وغیرہ۔ انسان کے ذہن میں پیدا ہونے والے اس قسم کے سوالات کا سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ وہ کون ہستی ہے، جو ہمیں اور اس کائنات کو چلارہی ہے۔ ہم اس کو کیسے جان سکتے ہیں۔ یعنی کون میرا خالق ہے، اور اس سے ہم کیسے مل سکتے ہیں۔
یہی معرفت کی پہلی سیڑھی ہے۔ قرآن میں سچائی کے متلاشی (seeker of truth)کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ کائنات میں تدبر و تفکر کرکے خدا تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں (آل عمران، 3:190-194)۔ سچے ایمان والے کے اندر پہلی چیز جو آتی ہے، وہ اللہ رب العالمین کی معرفت ہے۔ اس کے بعد معرفت کےنتیجے میں بہت سی دوسری چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ جیسے تقویٰ، سنجیدگی (sincerity)، تواضع(modesty)، وغیرہ۔