نبی منتظَر
یہود اپنی کتابوں کی بنیاد پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی منتظَر مانتے تھے، یعنی وہ نبی جو مستقبل میں آنے والا ہے۔ قرآن کی آیت : وَکَانُوا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُون (2:89) کے تحت یہاں مفسرین کے حوالے نقل کیے جاتے ہیں۔وکانوا ینتظرون خروج النبیّ (بحر العلوم للسمرقندی، 1/49) کانوا ینتظرون نبیا (تفسیر المنار، 1/315)۔ یعنی وہ نبی کے ظاہر ہونے کا انتظار کررہے تھے۔دوسرے الفاظ میں، یہود کے لیے پیغمبر اسلام کی حیثیت نبی منتظر کی تھی۔ لیکن جب آپ آئے تو یہود نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا:فَلَمَّا جَاءَہُمْ مَا عَرَفُوا کَفَرُوا بِہِ (2:89) ۔ یہ بات مخصوص طور پر قوم یہود کی نہیں ہے، بلکہ وہ عمومی معنی میں زوال یافتہ قوم کی نفسیات کو بتاتی ہے۔ اس معاملے میں یہود کا حوالہ ایک مثال کے طور پر ہے، نہ کہ اس معنی میں کہ اس قسم کا واقعہ صرف یہود کے ساتھ پیش آیا، کسی اور کے ساتھ ایسا پیش آنےوالا نہیں۔
خود مسلمانوں کے بارے میں یہ عین ممکن ہے کہ اپنے دورِ زوال میں وہ اُسی کے منکر ہوجائیں، جس کا وہ انتظار کرر ہے تھے، اور ان کو اس بات کا شعور بھی نہ ہو کہ ان کا یہ انکار قومِ یہود کی اتباع کے ہم معنی ہے۔ اصل یہ ہے کہ زوال یافتہ قوم ہمیشہ فرضی فخر (false pride) میں جینے والی بن جاتی ہے۔ ایسی قوم کے لیے اپنے گروہ کا آدمی تو قابل فہم ہوتا ہے، لیکن آدمی کا تعلق اگر دوسرے گروہ سے ہو تو وہ اپنی پُر فخر قومی نفسیات کی بنا پر اس کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں، اور اس بنا پر وہ اس کے منکر بن جاتے ہیں۔ زوال یافتہ قوم چیزوں کو میرٹ (merit) کی نسبت سے نہیں دیکھتی، بلکہ وہ اس کو خود اپنی نسبت سے دیکھتی ہے۔’’اپنی قوم‘‘ کا آدمی چوں کہ ان کے قومی فخر کی تصدیق کرنے والا دکھائی دیتا ہے، اس لیے وہ اس کو مان لیتے ہیں۔ لیکن دوسرے گروہ کا آدمی ان کو” غیر قوم“ کا آدمی دکھائی دیتاہے، جو ان کی قومی فخر کی تصدیق نہیں کرتا ۔ اس لیے وہ اس کا انکار کردیتے ہیں۔ اس طرح اپنی زوال یافتہ نفسیات کی بنا پر وہ لوگوںکو دو گروہوں میں بانٹ دیتے ہیں— غیر قوم کا آدمی اور اپنی قوم کا آدمی۔