داعی کی اسپرٹ

سورہ الانعام ایک مکی سورہ ہے۔ مکی دور میں پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت مکہ کے لوگ مشرکانہ مذہب پر تھے، اور پیغمبرِ اسلام کا مذہب توحید پر مبنی تھا۔ اس بنا پر وہ لوگ ابتدا میں آپ کے مخالف بن گئے۔ ان حالات میں قرآن کی یہ آیت اتری:قُلْ أَغَیْرَ اللَّہِ أَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَہُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ قُلْ إِنِّی أُمِرْتُ أَنْ أَکُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ (6:14)۔ یعنی کہو، کیا میں اللہ کے سوا کسی اور کو مددگار بناؤں جو کہ وجود میں لانے والا ہے آسمانوں اور زمین کا۔ اور وہ سب کو کھلاتا ہے اور اس کو کوئی نہیں کھلاتا۔ کہو مجھ کو حکم ملا ہے کہ میں سب سے پہلے اسلام لانے والا بنوں۔

پیغمبرِ اسلام کا یہ کلمہ شک کا کلمہ نہیں تھا، بلکہ عزم کا کلمہ تھا۔ یہ اپنی دعوت میں یقین کا اضافہ تھا۔ قرآن کی یہ آیت مین آف مشن (man of mission) کی اسپرٹ کو بتارہی ہے۔ مین آف مشن کی اسپرٹ ہوتی ہے، آئی ول ڈو اٹ (I will do it)۔ دوسرے لفظو ں میں اس آیت کا مطلب یہ تھا — کوئی توحید پر نہ چلے تب بھی میں اس پر چلوں گا، کوئی توحید کو نہ اپنائے تب بھی میں اس کو اپناؤں گا، کوئی توحید پرست نہ بنے تب بھی میں اکیلا توحید پرست بنوں گا، کوئی اس مشن کے لیے نہ اٹھے تب بھی میں اس کے لیے اٹھوں گا۔

دعوت کا کام ہمیشہ داعی کے یقین پر مبنی ہوتا ہے۔ اجتماعی زندگی میں جو کام بھی کیا جائے، اس کے لیے ناقابلِ شکست یقین کی ضرورت ہوتی ہے۔ ناقابلِ شکست یقین کے بغیر کوئی کام کامیابی کے درجے تک نہیں پہنچتا۔ اس قسم کا جملہ ناقابلِ شکست یقین کا اظہار ہوتا ہے، اور داعی کے اندر ناقابلِ شکست یقین کا پایا جانا، دعوت کی کامیابی کا یقینی ذریعہ ہے۔ داعی ٔ وقت کی زبان سے اس قسم کا جملہ دوسرے الفاظ میں اسی عزم کا اظہار ہوتا ہے، جس کو آئی وِل ڈو اسپرٹ (I will do spirit) کہا جاتا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom