موت کی یاد
قرآن میں انسان کے بارے میں ایک سنگین حقیقت کا اعلان ان الفاظ میں کیا گیا ہے:کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ(3:185)۔ اس حقیقت کے بارے میں حدیثِ رسول میں یہ الفاظ آئے ہیں:أَکْثِرُوا ذِکْرَ ہَادِمِ اللَّذَّاتِ، الْمَوْتَ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر4258)یعنی موت کو بہت زیادہ یاد کرو جو لذتوں کو ڈھادینے والی ہے۔
ھادم اللذات کو اگر لفظ بدل کر کہا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ موت کی یاد سوپر ڈی کنڈیشننگ (super deconditioning) کا ذریعہ ہے۔ ہر آدمی ضرور اپنے ماحول کی کنڈیشننگ کا شکار ہوتا ہے۔ چنانچہ ہر عورت اور مردلازمی طور پر مسٹر کنڈیشنڈ یا مس کنڈیشنڈ بن جاتے ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ، أَوْ یُنَصِّرَانِہِ، أَوْ یُمَجِّسَانِہِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1385)۔
اس عمومی کنڈیشننگ کی بنا پر ہر آدمی کی یہ ضرورت ہے کہ وہ شعور کی عمر کو پہنچنے کے بعد اپنی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ ڈی کنڈیشننگ کا یہ عمل (process) عام حالت میں بہت سست ہوتا ہے۔ لیکن موت کا واقعہ ایک دھماکہ خیز واقعہ ہے۔ آدمی کے اندر اگر موت کی سچی یاد پیدا ہوجائے تو ایک لمحے کے اندر اس کی کنڈیشننگ ٹوٹ جائے گی۔ موت کی یاد آدمی کو ایک لمحے میں دوبارہ اس کی فطری حالت پر قائم کردیتی ہے۔ ایک لمحے میں آدمی پورے معنوں میں حقیقت پسند (realist) بن جاتا ہے۔ ایک لمحے میں آدمی ایسا ہوجاتا ہے کہ موت کا مسئلہ اس کا واحد کنسرن (sole concern) بن جائے۔
موت کی یاد ہر آدمی کے لیے ایک جبری مصلح کی حیثیت رکھتی ہے۔وہ آدمی کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنا مصلح آپ بن جائے۔ وہ انتہائی حد تک بے لاگ انداز میں اپنا محاسبہ کرنے لگے۔ وہ سب سے زیادہ اپنے آپ کو آخرت رخی شخصیت بنالے۔