انسان کی عبدیت
قرآن کی سورہ بنی اسرائیل میں واقعۂ اسراء کا ذکر کرتے ہوئے آیا ہے:سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَى بِعَبْدِہِ (17:1)۔ یعنی پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے عبد کو۔ عبد کا مطلب معروف مفہوم کے مطابق غلام (slave) نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب عارف باللہ (realized person)ہے۔ یعنی وہ انسان جو معرفت کا سفر طے کرتے ہوئے اپنے آپ کو معرفت کے اعلیٰ درجے تک پہنچائے۔ یہ کسی شخص کا ذہنی اور روحانی سفر ہے۔ یہ معرفت کے سفر کا وہ درجہ ہے، جب کہ انسان اپنے آپ کو انٹلکچول دریافت (intellectual discovery) کے درجے تک پہنچاتا ہے، اور اپنے رب سے قربت کا مقام حاصل کرتا ہے۔
یہ ایک واقعہ ہے کہ اللہ رب العالمین انسان کا خالق ہے۔ اللہ رب العالمین نے انسان کو بہترین تخلیق کے ساتھ پیدا کیا۔ اللہ رب العالمین نے انسان کے لیے ایک ایسی کائنات بنائی، جو پورے معنوں میں کسٹم میڈ (custom-made) یونیورس ہے۔انسان کو ایک ایسی دنیا عطا کی، جہاں وہ لامحدود حد تک اپنے ارتقا کا سفر جاری رکھ سکے۔ اس حقیقت کے ادراک کے بعد جو شکر گزار بندہ بنتا ہے، اسی کا نام عبد ہے۔ عبدیت اس بات کا نام ہے کہ انسان اپنی حقیقت اور اپنے رب کی حقیقت کو معرفت کے درجے میں پالے۔ یہ پانا اتنا مؤثر ہو کہ اس کی شخصیت معرفت رب میں ڈھل جائے۔
عبدیت کسی انسان کے لیے درجۂ کمال تک پہنچنے کا نام ہے۔ اسی طرح رب اس دریافت کا نام ہے کہ انسان اپنے رب کو خالق اور محسن کی حیثیت سے درجۂ شعور میں دریافت کرے۔ عبد، انسانی شعور کے اعلیٰ مقام تک پہنچنے کا نام ہے، اور رب کی معرفت خالق کی ہستی کا کامل درجے میں ادراک کرنے کا نام ہے۔ عبد اور رب کے درجے کو سمجھنے کے لیے غلام اور آقا کے الفاظ ناکافی ہیں۔ یہ معرفت کی ڈکشنری کے الفاظ ہیں۔ ان کو صرف عارفانہ ذہن کے ذریعے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔