علما کا مقام

علما کے بارے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: إِنَّ العُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِیَاءِ، إِنَّ الأَنْبِیَاءَ لَمْ یُوَرِّثُوا دِینَارًا وَلاَ دِرْہَمًا إِنَّمَا وَرَّثُوا العِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَ بِہِ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ (سنن الترمذی، حدیث نمبر2682؛ سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 3641)۔ یعنی بیشک علما ابنیا کے وارث ہیں، انبیا نے دینار و درہم کی وراثت نہیں چھوڑی، بیشک انھوں نے علم کی وراثت چھوڑی ہے، پس جس نے اس کو لیا، اس نے بڑا حصہ پایا۔

اس حدیث میں علما سے مراد سند یافتہ علما نہیں ہیں، بلکہ وہ افراد ہیں، جو حقیقی معنوں میں اہل علم کا درجہ رکھتے ہوں۔ جن کو معرفت کے درجے میں ایمان حاصل ہوا ہو، اور پھر کثرتِ مطالعہ کے ذریعے وہ اس درجے تک پہنچے ہوں، جس کو ایک مشہور قول میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: یک من علم را، دہ من عقل می باید (ایک من علم کے لیے دس من عقل چاہیے)۔ یعنی صاحبِ معرفت و بصیرت انسان۔ اس معنی میں جو لوگ اہلِ علم ہیں، وہ اپنے علم و معرفت کی بنا پر اس قابل ہوجاتے ہیں کہ وہ دین کا صحیح فہم حاصل کریں، اور دین کو ہر زمانے میں مطلوب انداز میں دنیا کے سامنے پیش کریں۔

اس حدیث میں عالم سے مراد پروفیشنل عالم نہیں ہے، بلکہ عالم سے مراد صاحبِ معرفت عالم ہے۔ یہ وہ علما ہیں، جن کو ان کے علم ِدین نے اس آیتِ قرآن کا مصداق بنا دیا ہو: وَالَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہِ (2:165)۔ یعنی جو ایمان لائے، وہ اللہ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں۔اس سے مراد وہ اہلِِ علم ہیں، جن کے علم نے ان کا یہ حال کر دیا ہو کہ اللہ رب العالمین ان کا سب سے بڑا کنسرن بن گیا ہو۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں، جو صرف صاحبِ معلومات نہ ہوں، بلکہ گہرے معنی میں صاحبِ بصیرت بن چکے ہوں۔ اس سے مراد وہ عالم ہیں، جو لکھنے اور بولنے سے پہلے سجدے میں گر کر اللہ سے یہ دعا کرتے ہیں: یَا مُعَلِّمَ إبْرَاہِیمَ عَلِّمْنِی (اعلام الموقعین لابن القیم، 4/198)۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom