ظلم یا چیلنج

کچھ لوگ جوش کے ساتھ کہتے ہیں کہ ’’120، 130 کروڑ کی آبادی میں صرف 1 کروڑ ظلم کے خلاف کھڑے ہوجائیں، ممکن نہیں کہ ظلم باقی رہے‘‘— یہ بات صرف ایک خطابت (rhetoric) ہے، اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ موجودہ زمانے میں جو شخصیتیں یا جماعتیں معروف ہیں، وہ اپنے جو کارنامے بیان کرتے ہیں، ان کا مجموعہ 1 کروڑ سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی ایک کروڑ آدمی آج بھی مفروضہ ظلم کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں۔ پھر اس کا نتیجہ کہاں ہے۔ اصل یہ ہے کہ ظالم اور مظلوم کا مفروضہ ہی غلط ہے۔آج کی دنیا میں نہ کوئی ظالم ہے، اور نہ کوئی مظلوم ہے۔ ہر آدمی کو عمل کرنے کا پورا موقع ملا ہوا ہے۔ جو لوگ اس مقابلے میں پیچھے رہ جاتے ہیں، وہ اپنے کو مظلوم بتا کر یہ کہتے ہیں کہ ظالم لوگوں نے ہمیں پیچھے کردیا ہے۔ظالم اور مظلوم کا مفروضہ نااہل رہنماؤں کا پیدا کردہ ہے۔ جو لوگ نااہلی کے باوجود رہنمائی کے میدان میں کھڑے ہونا چاہتے ہیں۔ ان کو سب سے زیادہ آسان یہ بات نظر آتی ہے کہ وہ ظلم و مظلومیت کا افسانہ گھڑیں، اور اس طرح ایک طبقہ کے درمیان کچھ شہرت (popularity) حاصل کریں۔

جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں، ان کو چاہیے کہ وہ مواقع کو دریافت کریں، اور مواقع کو بتاکر لوگوں کی مثبت رہنمائی کریں۔ فطرت کے قانون کے مطابق،مسائل خواہ کتنے ہی زیادہ ہوں، مواقع ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ رہنما کا کام مواقع کی دریافت ہے۔ مسائل کا نام لے کر ان کے خلاف احتجاج کرنا کوئی کام نہیں۔ یہ رہنمائی کے نام پر لوگوں کو بھٹکانے کے سوا اور کچھ نہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں حدیث میں یہ کہا گیاہے — کہنے کے قابل کوئی بات ہو تو کہو، ورنہ چپ رہو:مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالیَوْمِ الآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6018)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس آدمی کے اندر ذمہ داری کا احساس ہو گا، اس کا حال یہ ہوگا کہ کہنے کے قابل کوئی بات ہوگی تو وہ کہے گا، ورنہ وہ چپ رہے گا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom