خدا کی دریافت
جس دنیا کو ہم جانتے ہیں، اور جس دنیا میں ہم رہتے ہیں، وہ دنیا اسپیس اور ٹائم (space and time) کی دنیا ہے۔ہماری تمام معلوم چیزیں اسی اسپیس اور ٹائم کے اندر پائی جاتی ہیں۔ ہم تمام معلوم چیزوں کو اسپیس اور ٹائم کی بنیاد پر جانتے ہیں۔ مثلاً فلاں چیز یہاں ہے، اور فلاں چیز وہاں ہے۔ فلاں چیز مغرب میں ہے، اور فلاں چیز مشرق میں ہے، وغیرہ۔ ہماری تمام معلوم کائنات اسی طرح اسپیس اور ٹائم کے حوالے سے ہماری دریافت کا حصہ بنتی ہے۔
ان تمام چیزوں میں جن کو ہم جانتے ہیں، یا جن کو ہم جاننا چاہتے ہیں، ان میں سے صرف ایک چیز استثناء کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ زمان و مکان سے سے ما ورا (beyond space and time) ہے۔یہ خدا ہے، جو کہ استثنا کی حیثیت رکھتا ہے۔ خدا کا یہی واحد استثنا ہونا، خدا کو سمجھنے، اور اس کو یقین کرنے میں مانع ہے۔ خدا کا beyond space and time ہونا، انسان کے لیے خداپر یقین کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ قدیم عقلیات میں اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ جدید سائنسی عقلیات (scientific rationalism) میں پہلی بار اس کی بابت ایک امکان کی خبر ملی ہے۔ موجودہ زمانے میں سائنس نے قیاس کے درجے میں اس کی خبر دی ہے۔ آئنسٹین کا نظریہ جنرل تھَیری آف ریلیٹیوٹی(general theory of relativity) اسی سے تعلق رکھتا ہے۔
میٹر(matter) کی تلاش کے معاملے میں انسان جس آخری حد پر پہنچا ہے، وہ سب ایٹمک پارٹکل (subatomic particle) ہے۔ سب ایٹمک پارٹکل کی دریافت نے تھیَری آف نالج میں انقلابی تبدیلی کی ہے۔ اب علم کی دنیا میں یہ مان لیا گیا ہے کہ سب ایٹمک پارٹکل جو میٹر (matter) کی فائنل انٹٹی (entity) ہے، وہ براہ راست طور پر قابلِ دریافت نہیں ہے۔ ہم صرف اس کی بالواسطہ دریافت تک پہنچ سکتے ہیں، جو کہ ایفکٹ (effect) تک پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے۔ ناقابلِ مشاہدہ سب ایٹمک پارٹیکل اپنی حرکت کے دوران ھیٹ (heat)پیدا کرتے ہیں۔ یہ ھیٹ میٹر کا وہ ایفکٹ ہے، جس کے ذریعے میٹر کا وجود دریافت ہوتا ہے۔ اسی طرح خالق (creator) کا ایفکٹ (effect) مخلوق (creation) ہے۔ یہاں بھی مخلوق (creation) کے ذریعے بالواسطہ طور پر خالق (creator) کی دریافت ہوتی ہے۔ اس دریافت سے تھیَری آف نالج میں ایک تبدیلی آئی ہے۔ اب امکانیات (probability) کو نالج تک پہنچنے کا ایک مستند (authentic) ذریعہ مان لیا گیا ہے۔ اب یہ کہا جارہا ہے:
Probably there is this and that
مزید یہ کہ
Probability is less than certainty but more than perhaps.
اب خدا میں یقین کی بنیاد یہ ہے کہ آدمی اپنے مائنڈ کو اتنا زیادہ ارتقا یافتہ (develop) بنائے کہ وہ جب یہ کہے:
Probably there is a God
تو وہ اس قول کو اس حقیقت میں ڈھال سکے:
Certainly, there is a God
اب پرابیبلیٹی (probability)کو سرٹینٹی (certainty)کی زبان میں دریافت کرنا ہے، جو شخص پرابیبلیٹی کی زبان کوسرٹینٹی (certainty)میں ڈھال سکے، وہی صاحبِ یقین انسان ہے۔ کوئی انسان پرابیبلٹی کو سرٹینٹی (certainty)کے درجے میں کس طرح دریافت کرے، اس کا ذریعہ میتھڈ (method)کی تبدیلی نہیں ہے، بلکہ اس کا ذریعہ یہ ہے کہ آپ خود اپنے ذہن کو اتنا زیادہ ارتقا یافتہ بنائیں کہ آپ پرابیبلٹی کو یقین (certainty) کے درجے میں دریافت کریں۔ یہ خود اپنے مائنڈ کو ڈیولپمنٹ کا معاملہ ہے، نہ کہ میتھڈ میں تبدیلی کا معاملہ۔ یہ منطق (logic) کو ریڈ یفائن (redefine)کرنے کا معاملہ ہے، جو شخص منطق کو ریڈ یفائن کرسکے، وہ اپنے یقین کو بحال کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ قدیم زمانہ یونانی لاجک کا زمانہ تھا، اور موجودہ زمانہ سائنٹفک لاجک کا زمانہ ہے۔