امت کی حالت ِزار

آج کل تمام دنیا میں مسلمانوں کی سوچ یہ ہے کہ وہ امتِ مسلمہ کی حالت ِزار کو بیان کرتے ہیں، اورپھر یہ اعلان کرتے ہیں کہ فلاں دشمنِ اسلام طاقت اس کی ذمہ دار ہے۔ مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے تقریباً سب کے سب یہی بولی بولتے ہیں اور یہی بات لکھتے ہیں۔ حالت ِزار کا یہ تصور اگر درست ہے تو قرآن و سنت کے مطابق، مسلم مقرر اور محرر کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ یہ دریافت کریں کہ امتِ مسلمہ سے خدا کی نصرت کیوں اٹھ گئی۔ اس معاملے میں کسی دشمن کا انکشاف کرنا، یقینی طور پر خلافِ اسلام فعل ہے۔

اس نقطۂ نظر کی تائیدمیں بہت سےواضح نصوص موجود ہیں۔ مثلاً قرآن کی اس آیت پر غور کیجیے: یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ (5:105)۔ یعنی اے ایمان والو، تم پر لازم ہے کہ تم اپنی فکر کرو۔ کوئی گمراہ ہوا تو اس سے تمہارا کچھ نقصان نہیں اگر تم ہدایت پر ہو۔اس آیت کے مطابق مسلمانوں کو چاہیے کہ جب بھی ان کی زندگی میں کوئی مسئلہ پیدا ہو تو اس کا سبب خود اپنے اندر تلاش کریں، کسی دوسرے پر اپنے مسئلے کی ذمہ داری ڈالنے کی کوشش نہ کریں۔

یہ رب العالمین کی قائم کردہ فطرت کا اٹل قانون ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سبب ہمیشہ آدمی کے اندر ہوتا ہے، نہ کہ اس کے باہر۔ جو لوگ ایسا کریں کہ وہ اپنے باہر سبب ڈھونڈ کر اس کو برا بتائیں یا اس کے خلاف لڑائی چھیڑیں، تو ایسا طریقہ ان کو کوئی فائدہ دینے والا نہیں۔ کیوں کہ اصل سبب تو اندر ہے، اور وہ باہر کے کسی مفروضہ دشمن پر ساری ذمہ داری ڈال رہے ہیں۔ یہ طریقہ خداکی دنیا میں کبھی کارآمد ہونے والا نہیں۔

تشخیص (diagnosis) اگر صحیح ہو تو اس کی بنیاد پر کی ہوئی تجویز (prescription) مفید ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اگر تشخیص درست نہ ہو تو اس کی بنیاد پر جو تجویز کی جائے گی، وہ بھی بے اثر ثابت ہوگی۔ یہ ایک اٹل اصول ہے، اور اس اصول میں کوئی استثنا نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom