غیر عملی نشانہ
رشید کوثر فاروقی (ایم اے انگلش) ایک باصلاحیت آدمی تھے۔ وہ شعر اور نثر دونوں میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے تھے۔ ان کا خاص ذوق ظلم کے خلاف احتجاج تھا۔ انڈیا میں جب ایمرجنسی (1975 to 1977) نافذ کی گئی تھی، تو وہ اس کے مخالف بن گئے۔ اس سلسلے میں ان کی ایک نظم اُس زمانے میں کافی مشہور ہوئی تھی۔ اُس کا ایک شعر یہ تھا:
دماغ بیچئےورنہ اتارلینگے یہ سر دلیل سوچ کہ ہر ظلم کو روا کہیے
رشید کوثر فاروقی اسی قسم کے انقلابی، زیادہ صحیح الفاظ میں ریڈیکل خیالات میں جیتے رہے۔ یہاں تک کہ 74 سال کی عمر میں مایوسی کی حالت میں اپنے وطن سیتاپور میں 2007 میں ان کا انتقال ہوگیا۔ آخری زمانے میں انھوں نے ایک نظم لکھی تھی، اس کا ایک شعر یہ تھا:
زیست کا راز کھلا گردش ایام کے بعد اِس کہانی کا تو آغاز تھا انجام کے بعد
ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اعلیٰ صلاحیت رکھتے تھے۔ انھوں نے جوش کے تحت اپنے لیے کچھ انقلابی نشانے بنائے۔ مگر آخری وقت میں اُن کو معلوم ہوا کہ ان کے نشانے غیر عملی اور ناقابل حصول تھے۔ اسی قسم کے ایک مسلم لیڈر نے آخری زمانے میں اپنے بارے میں کہا تھا:
وہ محروم تمنا کیوں نہ سوئے آسماں دیکھے کہ جو لمحہ بہ لمحہ اپنی کوشش رائیگاں دیکھے
یہ انجام اکثر ان لوگوں کا ہوا ہے، جو غیر معمولی صلاحیت کے حامل تھے۔ مگر ان کے اندر غیرحقیقی سوچ پیدا ہوگئی۔ انھوں نے اپنے لیے ایسے نشانے بنائے، جو قانونِ فطرت کے تحت پورے ہونے والے نہ تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ احساسِ ناکامی کے ساتھ دنیا سے چلے گئے۔ ایسے لوگوں کے لیے صحیح یہ تھا کہ وہ اپنی سوچ کی غلطی کا کھلا اعتراف کریں۔ تاکہ دوسروں کو ان کی زندگی سے سبق ملے۔ لیکن عملاً یہ ہوا کہ وہ سارا الزام دوسروں پر دیتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ دنیا سے رخصت ہوگئے، مگر دنیا کو جو کچھ وہ دے سکتے تھے، وہ اس کو نہ دے سکے۔