حکومتِ الٰہیہ یا حکومتِ انسانیہ
اگر آپ دنیا میں حکومت ِ الٰہیہ قائم کرنے کی تحریک چلائیں، تو اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ حکومت الٰہیہ نہیں ہوگی، بلکہ وہ حکومتِ الٰہیہ کے نام پر انسانی حکومت قائم کرنے کی تحریک ہوگی۔ یہ دنیا پوری کی پوری حکومت ِ الٰہیہ کی دنیا ہے۔ قرآن میں بار بار یہ بات کہی گئی ہے کہ زمین و آسمان کا خالق صرف ایک اللہ ہے، اور اسی کے ہاتھ میں پوری کائنات کا اقتدار ہے۔
اس قسم کی ایک آیت وہ ہے، جس کو آیت الکرسی (البقرۃ، 2:255)کہا جاتا ہے۔ آیت الکرسی گویا اسی حاکم مطلق کاشاہانہ منشور ہے۔ اس منشور میں کائنات کے مقتدرِ اعلی کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا ہے:وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضُ (2:255)۔ یعنی اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے:
His throne extends over the heavens and the earth.
یہ کائنات پوری کی پوری حکومتِ الٰہیہ کی کائنات ہے۔ پورے زمین و آسمان میں اسی ایک اللہ کی حکومت ہے۔ اس حکومت میں کوئی اس کا شریک نہیں۔انسان کے لیے جائز حکومت کی صرف ایک صورت ہے۔ وہ یہ کہ وہ محدود معنٰی میں انتظامیہ (administration) ہو، نہ کہ معروف سیاسی تصور کے مطابق، ایک بااقتدار حکومت۔
دنیا میں انسان کو اگر حکومت ملتی ہے، تو وہ بطور امتحان (test) ہے۔ دنیا میں اگر کوئی انسانی حکومت قائم ہوتی ہے، تو وہ بطور ٹیسٹ ہے(الانعام، 6:165)۔ یہ امتحانی دور صرف قیامت تک کے لیے ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالی حکومتِ انسانی کے اس دور کو ختم کردے گا۔ اس حقیقت کا اعلان ایک حدیث میں کیا گیا ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے: قیامت کے دن اللہ زمین کو مٹھی میں لے لے گا، اور آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھر کہے گا، میں بادشاہ ہوں، کہاں ہیں زمین کے بادشاہ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2787)۔