منصوبۂ تخلیق

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ خالق نے انسان کو بہترین ساخت کے ساتھ پیدا کیا ہے، پھر اس کو اسفل سافلین میں ڈال دیا(التین، 95:4-5)۔اس آیت کا مطلب وہی ہے، جو بائبل میں تمثیل کی زبان میں اس طرح آیا ہے: تم نے بہت سا بویا، پر تھوڑا کاٹا(حجی، 1:6)۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی ساخت اور تخلیقی پلان میں فرق ہے۔ اس دنیا میں انسان زیادہ چاہے گا، مگر ا س کو کم ملے گا۔ انسان زیادہ کا منصوبہ بنائے گا، لیکن عملاً اس کو اپنے منصوبے سے کم ملےگا۔ انسان اجر غیر ممنون چاہے گا، لیکن اس کو صرف اجر ممنون ملے گا۔ انسان اپنی خواہش کے مطابق چاہے گا، لیکن وہ اس دنیا میں رازق کی تقسیم کے مطابق پائے گا۔ انسان اپنے حوصلے کے مطابق چاہے گا، لیکن اس کو خالق کے مقدرات کے مطابق حاصل ہوگا۔

چاہنے اور پانے میں یہ فرق کیوں ہے۔ وہ اس لیے ہے کہ انسان سوچے، وہ غور کرکے اس فرق کی حکمت کو دریافت کرے۔ انسان اگر ایسا کرے، تو وہ جانے گا کہ خالق کے نقشے کے مطابق دنیا کا ایک ’’آج‘‘ہے، اور اس کا ایک ’’کل‘‘ ہے۔ آج کی دنیا عمل کے لیے ہے، اور کل کی دنیا عمل کا انجام پانے کے لیے ہے۔ آج کی دنیا بونے کے لیے ہے، اور کل کی دنیا اس کا پھل کاٹنے کے لیے ہے۔

ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ وہ خالق کے اس نقشۂ تخلیق کو جانے،اور اس کا اعتراف کرے کہ اس دنیا کو بنانے والا وہ نہیں ہے، بلکہ اس کو بنانے والا کوئی اور ہے۔ دنیا ہر حال میں خالق کے نقشے کے مطابق چلے گی، اس کے اپنے نقشے کے مطابق نہیں چل سکتی،تو وہ اس کے مطابق اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے۔ وہ اس حقیقت کو جانے کہ وہ خدا کی دنیا میں جو کچھ پائے گا، خالق کی تقسیم کے مطابق پائے گا۔ انسان اگر خالق کے نقشے کو مان کر چلے، تو اس کے لیے کامیابی ہے، اور اگر وہ اس نقشے سے انحراف کرے، تو وہ ہرگز کامیاب ہونے والا نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom