دینی شناخت
مسلمانوں کا لکھنے اور بولنے والا طبقہ ایک بات نہایت دھوم سے کہتا ہے۔ وہ ہے، مسلمانوں کی دینی شناخت کا تحفظ۔ اس معاملے کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دینی شناخت عملاً کلچرل شناخت کا دوسرا نام ہے۔ دینی شناخت کوئی قرآن و سنت کی اصطلاح نہیں ہے۔دینی شناخت اپنی حقیقت کے اعتبار سے کلچرل شناخت کا نام ہے، اور مسلمانوں کی کوئی ایک کلچرل شناخت نہیں ہوسکتی۔ آپ اگر دنیا کا سفر کریں،اور ہر ملک کے مسلمانوں کا جائزہ لیں، تو ہر ملک کے مسلمانوں کی کلچرل پہچان الگ الگ ہوگی۔ شناخت (identity)کا تعلق فارم سے ہے، اور فارم کبھی ایک نہیں ہوسکتا۔
مسلمانوں کی نسبت سے جو مسئلہ ہے، وہ شناخت کا تحفظ نہیں ہے، بلکہ قرآن و سنت کا احیا (revival) ہے۔ مسلمانوں کی اصل ضرورت یہ ہے کہ ان کے اندر معرفت والا ایمان پیدا کیا جائے۔ ان کے اندر وہ ایمان پیدا کیا جائے، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَالَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہِ (2:165)۔ یعنی جو ایمان لائے، وہ اللہ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں۔ اسی طرح:وَلَمْ یَخْشَ إِلَّا اللَّہَ (9:18)۔ یعنی وہ صرف اللہ سے ڈرتے ہیں۔
شناخت کا تصور فارم پر مبنی ہے۔ فارم کا تعلق دین سے نہیں ہوتا، بلکہ حالات سے ہوتا ہے۔ سماجی حالات اور جغرافی حالات،اس کا تعین کرتے ہیں۔ اس وقت مسلمانوں میں جس چیز کی کمی ہے، وہ فارم کی نہیں ہے، بلکہ ربانی اسپرٹ کی ہے۔ اسلام فارم پر مبنی کلچر نہیں ہے، بلکہ اسلام ربانی اسپرٹ پر مبنی دین کا نام ہے۔ آج ضرورت ربانی اسپرٹ کو زندہ کرنے کی ہے، نہ کہ فارم کو زندہ کرنا۔
ربانی اسپرٹ یہ ہے کہ اہلِ ایمان اللہ سے ڈرنے والے ہوں، وہ اللہ کو اپنا سول کنسرن (sole concern) بنائیں، وہ دینی اقدار (Islamic values) کو اختیار کریں، ان کے اندر قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) پایا جاتا ہو، ان کے افراد کے اندر امانت (honesty) ہو، ان کے اندر انسانوں کے لیے خیر خواہی پائی جاتی ہو۔