خدا اور انسان
تخلیق کا یہ عجیب معاملہ ہے کہ تخلیق کے واقعات ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں، لیکن خالق مکمل طور پر ناقابلِ مشاہدہ ہے۔انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے خالق کی تلاش میں رہتا ہے، جس طرح کوئی بچہ اپنی گم شدہ ماں کی تلاش میں رہتا ہے۔ لیکن ساری عمر تلاش کرنے کے باوجود انسان اپنے خالق سے بے خبر رہتا ہے۔ وہ اپنے ماں باپ کو جانتا ہے، لیکن وہ اپنے خالق کو نہیں جانتا۔ اس حقیقت کوفانی بدایونی (1879-1961) نے اس عارفانہ شعر میں بیان کیا ہے:
مجھے بلا کے یہاں آپ چھپ گیا کوئی میں وہ مہماں ہوں، جسے میزباں نہیں ملتا
انسان اگر اپنے خالق کو دیکھ لے، تو وہ اپنے خالق کو اس سے زیادہ مانے گا، جتنا وہ اپنے ماں باپ کو مانتا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اِس کا سبب کیا ہے۔ غالباً خالق چاہتا ہے کہ وہ اپنے بندے کو ایک سرپرائز (surprise) دے۔ وہ اچانک اپنے بندے کے سامنے ظاہر ہو۔ خدا یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے بندے کو ایک ناقابلِ بیان استعجاب (sense of awe) کا تجربہ کرائے۔ خدا یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے بندے کو سب سے بڑی خوشی کا تحفہ دے۔ وہ چاہتا ہے کہ بندہ جب اپنے خدا کو پائے تو وہ اس کے لیے سادہ طور پر صرف پانا نہ ہو، بلکہ وہ اس کے لیے حیرت ناک خوشی کا ایک ایسا تجربہ ہو، جس کو کسی انسان نے نہ دیکھا، اور نہ سنا، اور نہ کسی انسان کے دل پر اس کا تصور گزرا۔
تاہم یہ پر استعجاب تجربہ صرف اس انسان کے حصے میں آئے گا، جو اپنے رب کا سچا متلاشی بنا ہو۔جس کا جینا اور مرنا اپنے رب کے لیے ہو۔جس کی راتیں اور دن اس کی یاد میں بسر ہوں، اور اس کے انتظار میں گزرے ہوں۔ جس نے خدا کو اس طرح تلاش کیا، جس طرح کوئی چھوٹا بچہ اپنی ماں کو اس وقت تلاش کرتا ہے، جب کہ وہ کسی بھیڑ میں اس سے بچھڑ گئی ہو۔ خدا کو پانے کی خوشی اس انسان کے لیے مقدر ہے، جو موجودہ دنیا میں حقیقی معنوں میں خدا کا متلاشی (seeker) بن کر رہا ہے۔ جو لوگ خدا کی یاد میں تڑپے ہوں، وہی وہ لوگ ہیں، جو خدا کو پانے کی خوشی میں حصے دار بنیں گے۔