والرُجز فاھجر
پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنے مشن کا آغاز کیا۔ آپ کا مشن مبنی بر توحید مشن تھا۔ آپ کا کام یہ تھا کہ آپ لوگوں کو بتائیں کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو، اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو۔ اُس وقت عملی طور پر یہ صورت حال تھی کہ مکہ میں حضرت ابراہیم کا تعمیر کردہ کعبہ تھا، جو ایک اللہ کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا۔ حضرت ابراہیم نے یہ کعبہ تقریباً چار ہزار سال پہلے مکہ کے مقام پر بنایا تھا، لیکن بعد کومکہ کے لوگوں میں بت پرستی آگئی۔ انھوں نے کعبہ کی عمارت میں بت رکھنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ کعبہ میں بتوں کی تعداد تقریباً تین سو ساٹھ ہوگئی۔
اسی کے ساتھ دوسری صورت حال یہ تھی کہ عرب کے مختلف حصوں سے لوگ کعبہ کی زیارت کے لیے برابر آتے رہتے تھے۔ کعبہ میں رکھے ہوئے تین سو ساٹھ بت در اصل مختلف قبائل کے بت تھے۔ اپنے بتوں کی زیارت کے لیے وہاں ہر دن عربوں کا مجمع اکٹھا ہوتا تھا۔ گویا کہ اس وقت ایک طرف کعبہ میں بتوں کی موجودگی کا مسئلہ تھا، اور دوسری طرف کعبہ کے پاس جمع ہونے والے لوگ تھے، جو رسول اللہ کے لیے عملاً فطری آڈینس (audience) کی حیثیت رکھتے تھے۔
یہ حالات تھے جب کہ قرآن میں سورہ المدثر نازل ہوئی۔ اس سورہ میں پیغمبر اسلام کو حکم دیا گیا کہ تم انذار (دعوت الی اللہ) کا کام کرو، اور جہاں تک کعبہ میں بتوں کی موجودگی کا معاملہ تھا، اس کے بارے میں یہ آیت اتری: وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ (74:5)یعنی اور گندگی کو چھوڑ دے۔
قرآن کی اس آیت میں فاھجر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان میں ھجر یھجُر کا مطلب اعراض (avoidance) ہے۔ یعنی نظر انداز کرنا۔ قرآن کی اس آیت میں پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکیمانہ طریقۂ کار (wise method) بتایا گیا کہ کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو عارضی طور پر نظر انداز کرو، اور ان کی وجہ سے کعبہ کے پاس جو مجمع اکٹھا ہوتا ہے، اس کو اپنے لیے بطور آڈینس (audience) استعمال کرو۔