قناعت کا سبق

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ رب العالمین نے جب انسان اول، آدم اور ان کی بیوی کو پیدا کیا تو دونوں کو جنت میں بسا دیا۔ اس وقت اللہ نے جنت میں ایک درخت نامزد کردیا، اور کہا کہ اس درخت کے پاس نہ جانا اور اس کا پھل نہ کھانا۔مگر کچھ عرصے کے بعد دونوں میں اس کی رغبت پیدا ہوئی اور وہ ممنوعہ درخت (forbidden tree) کے پاس چلے گئے اور اس کا پھل کھالیا۔ اس کے بعد دونوں کو موجودہ دنیا (planet earth) پر بھیج دیا گیا۔ اس واقعے میں تمام انسانوں کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ یہ واقعہ تمثیل کی زبان میں بتاتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کو صرف ’’کچھ‘‘ ملے گا، اس کو ’’سب کچھ‘‘ نہیں مل سکتا۔ سب کچھ صرف اہلِ جنت کے لیے مقدر ہے۔ اسی اصول کا نام قناعت (contentment)ہے۔ اگر دیکھا جائے تو انسان ہر دور میں اس اصول سے غافل رہا ہے۔ وہ جزء کو پاتا ہے، اس کے باوجود وہ کُل کی طرف دوڑتا ہے۔

قناعت کا برعکس لفظ حرص (greed) ہے۔ خالق کے مقرر کردہ نقشے کے مطابق اس دنیا میں کسی آدمی کو یا کسی گروپ کو صرف جزء (part) مل سکتا ہے۔ جو آدمی یا گروپ کُل کی طرف دوڑے، وہ کبھی اپنے نشانے کو حاصل نہیں کرسکتا۔ حریص آدمی کے لیے اس دنیا میں صرف عدمِ آسودگی (discontentment) مقدر ہے۔ اس کے برعکس، قانع آدمی کے لیے اس دنیا میں آسودگی (contentment) مقدرہے۔ یہی فطرت کا قانون ہے۔ جو فرد یا گروہ فطرت کے اس قانون کو سمجھے، اور اس پر چلے، وہی اس دنیا میں کامیاب ہوگا۔ جو فطرت کے اس قانون کو نہ سمجھے، اور خود ساختہ نشانے کی طرف دوڑے، وہ خدا کی اس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔

جو آدمی قناعت کا طریقہ اختیارکرے، خدا کی پیدا کی ہوئی پوری دنیا اس کی مؤید (helper) بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس، جو لوگ حرص کا طریقہ اختیار کریں، وہ گویا فطرت کے قانون سے لڑرہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے صرف یہی مقدر ہے کہ وہ اپنا نشانہ کبھی پورا نہ کرسکیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom