تقویٰ بقدرِ استطاعت
قرآن کی ایک آیت کا ایک جزءیہ ہے: فَاتَّقُوا اللَّہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ(64:16)۔ یعنی پس تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، جہاں تک ہوسکے۔ اتقوا للہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بطور حکم اللہ سے ڈرو، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے بنو۔تفکر و تدبر کے ذریعے اپنے ذہن کو اس طرح تیار کرو کہ وہ بطور مزاج اللہ سے اندیشہ رکھنے والا بن جائے۔ تقویٰ کسی آدمی کے اندر تربیت کے ذریعے آتا ہے، تقویٰ کوئی ایسی چیز نہیں، جو خود بخود آدمی کے اندر بطور عطیہ موجود ہو۔ اس حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے غورکیجیے تو آیت کا مطلب یہ سمجھ میں آئے گا کہ اپنے آپ کو تقویٰ کے لیے تیار کرو۔ اپنی سوچ کو متّقیانہ سوچ بناؤ۔ اپنے مزاج کو متقیانہ مزاج بناؤ۔ اپنے آپ کو تربیت دے کر ایسا بناؤ کہ تم ہر صورتِ حال میں مثبت رسپانس (positive response) دینے والے بن سکو۔ تقویٰ ایک حاصل کردہ صفت ہے، تقویٰ کوئی ایسی صفت نہیں، جو انسان کو اپنے آپ مل جائے۔
مثال کے طور پر قرآن کی ایک آیت یہ ہے: یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامِینَ لِلَّہِ شُہَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى (5:8)۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی قوم آپ کے ساتھ دشمنی کا معاملہ کرے تو ایسے موقعے پر عدل کی روش پر قائم رہنا، یہ تقویٰ ہے۔ اس قسم کا تقویٰ کب پیدا ہوتا ہے۔ وہ اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کہ آدمی کا ذہن اتنا زیادہ تربیت یافتہ ہو کہ وہ ایسا نہ کرے کہ پیش آنے والے واقعے پر بھڑک اٹھے، بلکہ وہ اپنے آپ کو ردّعمل سے بچائے، وہ بے لاگ (objective) انداز میں سوچے کہ میرے ساتھ جو کیا گیا ہے، وہ جوابی کارروائی (retaliation) کی بنا پر تو نہیں۔ اگر ایسا ہے تو ایک متقی انسان خود اپنے آپ کو ذمے دار ٹھہرائے گا۔ وہ سوچے گا کہ آئندہ مجھے ایسی روش سے اپنے آپ کو بچانا ہے، جو فریقِ مخالف کے اندر جوابی ذہن پیدا کرےکہ وہ انتقامی ذہن کے ساتھ میرے خلاف کارروائی کرنے لگے۔ اس لیے مجھے ایسا نہیں کرناہے کہ میں جوابی ذہن کے تحت بھڑک اٹھوں، اور جو غلطی میری ہے، اس کا الزام دوسرے کو دینا شروع کردوں۔
یہ تقویٰ یا متقیانہ روش ہے۔ اس قسم کا تقویٰ کسی آدمی کے اندر فوری طور پر ایک بٹن دباکر پیدا نہیں ہوتا۔انسان کو اپنے آپ کو تربیت دے کر اس قسم کی متقیانہ روش کے لیے تیار کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے آیت کا یہ لفظ کہ متقیانہ روش پر قائم رہو، کا مطلب یہ ہے کہ متقیانہ روش کے لیے اپنے آپ کو تیار کرو۔ اپنے ذہن کو منفی ذہن بننے سے بچاؤ، اپنے ذہن میں شکایتی نفسیات پیدا نہ ہونے دو۔ عقلی غور و فکر کے ذریعے اس حقیقت کو دریافت کرو کہ جو معاملہ پیش آتا ہے، وہ یک طرفہ سبب سے نہیں پیش آتا۔ اس کا سبب ہمیشہ دو طرفہ ہوتا ہے۔ اس لیے تقویٰ یہ ہے کہ آدمی اپنی جانب کی غلطی سے خود کو بچائے۔ گویا تقویٰ محاسبۂ خویش کا ایک مثبت نتیجہ ہے۔
تقویٰ اس طرح اچانک نہیں پیدا ہوتا کہ اب تک آپ کا ذہن ایک سوئچ (switch) کے تحت کام کررہا تھا،اب آپ اپنی انگلی کے ذریعے دوسرے سوئچ کو دبادیں، اور آپ کے اندر متقیانہ روش پیدا ہوجائے۔ تقوی ایک تھنکنگ پراسس (thinking process) کا نتیجہ ہے۔ جس آدمی نے اپنے اندر یہ پراسس جاری نہ کیا ہو، اس کے اندر تقویٰ بھی پیدا نہیں ہوگا۔
فاتَّقُوا اللَّہَ مَا اسْتَطَعْتُم کا مطلب یہ ہے — اخلاص کے ساتھ تم جتنا زیادہ اپنے آپ کو تقویٰ کے لیے تیار کرو گے، اللہ تعالی اس کو قبول فرمائے گا، اور مزید کی توفیق دے گا۔ تقویٰ کوئی جامد چیز نہیں ہے۔ تقویٰ ایک ارتقا پذیر صفت ہے۔ تقویٰ ایک درخت کی مانند ہے۔ تقویٰ کا درخت آدمی خود اپنے اندر لگاتا ہے۔ اس کے بعد اخلاص کے بقدر مزید اس کو توفیق حاصل ہوتی ہے، اور پھر اللہ کی توفیق سے یہ درخت بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کا معاملہ وہ ہوجاتا ہے، جوقرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: أَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ۔تُؤْتِی أُکُلَہَا کُلَّ حِینٍ بِإِذْنِ رَبِّہَا وَیَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ (14:24-25)۔ وہ ہر وقت پر اپنا پھل دیتا ہے اپنے رب کے حکم سے— اس کا مطلب یہ ہے کہ جس درجے کی متقیانہ شخصیت، اسی درجے کا متقیانہ کردار۔