ایمان کے بعد ایمان
قرآن کی ایک رہنما آیت ان الفاظ میں آئی ہے: یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی نَزَّلَ عَلَى رَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ یَکْفُرْ بِاللَّہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِیدًا (4:136)۔ یعنی اے ایمان والو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو اس نے پہلے نازل کی۔ اور جو شخص انکار کرے اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور آخرت کے دن کا تو وہ بہک کر دور جا پڑا۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ ایمان کو ایمان لانے کے بعد دوبارہ ایمان لانا ہے۔ ایک حدیثِ رسول میں اس حقیقت کو ان الفاظ میں بتایا گیا ہے:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: جَدِّدُوا إِیمَانَکُمْ، قِیلَ:یَا رَسُولَ اللہِ، وَکَیْفَ نُجَدِّدُ إِیمَانَنَا؟ قَالَ:أَکْثِرُوا مِنْ قَوْلِ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ (مسند احمد،حدیث نمبر8710)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ تم لوگ اپنے ایمان کی تجدید کرو، پوچھا گیا: اے خدا کے رسول ہم اپنے ایمان کی تجدید کیسے کریں۔ آپ نے کہا: لا الہ الا اللہ کو زیادہ سے زیادہ ادا کرو۔
روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اجتماعی طور پر بیٹھ کر اپنے ایمان کا دوبارہ چرچا کرتے تھے۔اس معاملے پر غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ ایمان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چند قانونی الفاظ ہیں، ان کو اگر آدمی نے دہرادیا تو اس کو ایمان حاصل ہوگیا۔ بلکہ ایمان ایک ایسی حقیقت کا اقرار ہے، جس کی گہرائیاں کبھی ختم نہیں ہوتی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: وَلاَ تَنْقَضِی عَجَائِبُہُ (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2906)۔ یعنی اس کے عجائبات ختم نہیں ہوتے۔
اسی حقیقت کو قرآن میں دوسرے مقام پر ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:لِیَزْدَادُوا إِیمَانًا مَعَ إِیمَانِہِمْ (48:4)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان ابتدائی طور پر اقرار کا نام ہے۔ لیکن اپنے توسیعی معنی میں وہ مسلسل غور و فکر کا موضوع ہے۔ آدمی جب ایمان پر مسلسل غور فکر کرے، وہ ایمان کو تدبر کا موضوع بنائے تو اس کو بار بار اس معاملے میں نئی حقیقتوں کی ری ڈسکوری ہوتی رہتی ہے۔ وہ بیان کردہ ایمان کو ذاتی اعتبار سے اپنے لیے ری ڈسکوری بناتا ہے۔ اس طرح اس کا ایمان اس کے لیے ری ڈسکورڈ (rediscovered) ایمان بن جاتا ہے۔ یہ ری ڈسکورڈ ایمان ہی وہ چیز ہے جو مومن کے یقین کو بڑھاتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا اقرار کامل یقین کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔
ابتدائی طور پر ایمان ایک عمومی حقیقت کا اقرار ہے۔ لیکن ایمان کو ری ڈسکور کرنا، آدمی کے ایمان کو ایک نیا درجہ عطا کرتا ہے۔ ایسے آدمی کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ جو ایمان اس کے لیے ابتدائی طو رپر محدود اقرار کے درجے میں تھا، وہ اس کے لیے لا محدود یقین کے ہم معنی بن جاتا ہے۔
ایمان جس آدمی کو حاصل ہوجائے، اس کے لیے اس کا ایمان ایک مسلسل غور و فکر کا موضوع بن جاتا ہے۔ ایمان اس کے ذہن کے لیے ایک ایسا طوفان بن جاتا ہے، جو مسلسل طو رپر اس کو تدبر کرنے والا بنادے۔ تدبر کے ذریعے ایما ن کے نئے نئے پہلو اس پر کھلتے ہیں، وہ بار بار اپنے ایمان کو دریافت کرتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے ایمان کی تجدید کرتا رہتا ہے۔ یہ عمل (process) برابر جاری رہتا ہے۔ اسی مسلسل ایمان کو قرآن میں ایماناً مع ایمانہم (الفتح،48:4) کےالفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ گویا ایمان کوئی جامد چیز نہیں ہے، بلکہ وہ اضافہ پذیر چیز ہے۔
کسی آدمی نے حقیقی اسلام کو پایا ہے یا نہیں، اُس کا معیار صرف ایک ہے، اور وہ فکرِآخرت ہے۔ جس آدمی کا اسلام اُس کے اندر گہرے طورپر آخرت کی فکر پیدا کردے، اُسی نے فی الحقیقت اسلام کو پایا۔ جس آدمی کا اسلام اُس کو جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو نہ دکھائے، اُس نے اسلام کو پایا ہی نہیں۔اُس نے کسی اور چیز کو پایا ہے اور غلطی سے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ اُس نے اسلام کو پالیا ہے۔