معرفتِ الٰہی
معرفت کیا ہے۔ معرفت یہ ہے کہ ایک انسان غور و فکر کے ذریعے یہ جان لے کہ اس دنیا کا ایک خالق (Creator) ہے۔ وہ خالق ایک زندہ ہستی ہے۔ وہ کائنات میں اسی طرح موجود ہے، جس طرح سورج ایک روشن حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ اس دریافت کے مطابق، خدا صرف ایک عقیدہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک زندہ حقیقت ہے۔ وہ ایک صاحبِ اقتدار ہستی ہے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےکہ وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْض (2:255):
His throne extends over the heavens and the earth
مومن (believer) کے اندر خدا کا وجود اس طرح ایک زندہ حقیقت کے طور پر ہونا چاہیے کہ خدا کے تصور سے اس کی وہ حالت ہوجائے، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللَّہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیمَانًا(8:2)۔ یعنی ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جائیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کے سامنے پڑھی جائیں تو وہ ان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں:
True believers are those whose hearts tremble with awe at the mention of God, and whose faith grows stronger as they listen to His revelations.
انسان اس دنیا میں اپنے آپ کو ایک زندہ وجود کے طور پر پاتا ہے۔ اسی طرح اس کو زیادہ برتر معنوں میں اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ یہاں اسی طرح ایک اورزیادہ برتر ہستی موجود ہے۔ اس کو زندہ خدا کا اتنا زیادہ یقین ہونا چاہیے کہ اس کو بالفرض اپنے آپ پر شک ہو، تو ہو، لیکن اللہ رب العالمین کے وجود پر ادنی درجے میں بھی اس کے اندر کوئی شک پایا نہ جائے۔ اس کو اس بات کازندہ یقین ہو کہ وہ ہر لمحہ اللہ کی پکڑ میں ہے۔ یہ یقین و ایمان کسی کو غور و فکر کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یقین کے لیےکوئی دوسرا ذریعہ نہیں۔